حوصله نيوز
عید الفطر- تقریب تقسیم انعامات


تحریر: محمد عارف اصلاحی
ابوذر سر جیسے ہی آج کلاس میں داخل ہوئے علیک سلیک کے بعد سب بچے بیک زبان بول پڑے:
سر! آپ نے جو ہوم ورک پچھلے ہفتہ دیا تھا وہ ہم لوگوں نے اچھی طرح سے پورا کر لیا۔ پہلے سرنے سرسری طور پر جائزہ لیا پھر یوں گویا ہوئے: ارے آپ لوگوں نے تو آج کمال ہی کردیا، دل خوش ہوگیا۔ابھی یہ بات ہو ہی رہی تھی کہ پرنسپل سر درجے میں داخل ہوئے، بچوں نے سلام کیا اور اجازت پاکر اپنی جگہوں پر بیٹھ گئے ۔
پرنسپل سر : ہاں کیا بات چل رہی تھی پہلےوہ مکمل کر لیجئے۔ 
ابو ذر سر بولے : سر آپ ہی بتائیے میں ان بچوں کو کیا انعام دوں؟ ان لوگوں نے تو آج کمال کردیا،" طبیعت ہری ہوگئی".طبیعت ہری والی بات پر بچے زیرلب مسکرائےاور سر بھی ہنسی ضبط کرتے ہوئے بولے : اگر ان بچوں نے اپنا کام آپ کے کہنے پر اچھی طرح کیا ہے تو انھیں ان کا حق ضرور ملنا چاہئے، یہ کام آپ بعد میں کر لیجئے گا۔میں بچوں سے " عید الفطر " کے بارے میں کچھ گفتگو کرنا چاہتا ہوں، آپ بھی اپنی کرسی پر تشریف رکھیں۔
ہاں تو عزیزو! بس ایک دو روز بعد عید الفطر آنے والی ہے جس کی تیاری میں آپ لوگ لگےہوں گے،کوئی اپنے نئے کپڑے نکال کر دیکھتا ہوگا، کوئی اسپورٹ شو لینے کا پلان بنا رہا ہوگا، کوئی ٹوپی، رومال ، خوشبو تلاش کرتا پھر رہا ہوگا، بچیاں تو اور مگن ہوں گی، کپڑے، جوتے چپل کے علاوہ ان کی ہار بندوں اور چوڑیوں کی فرمائش کے ساتھ عید سے قبل مہندی لگوانے کا انتظام وغیرہ غرض یہ کہ ہر شخص عید کی تیاریوں میں پہلے ہی سے لگ جاتا ہے۔لیکن یہ بتائیے کہ کبھی آپ نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ عید کا مقصد کیا ہے؟ عید کیوں اور کیسےمناتے ہیں؟ آئیے آج انھیں باتوں کا جواب تلاش کرتے ہیں: 
عید کےمعنی ہوتے ہیں، بار بار آنا، چونکہ عید ہر سال آتی ہے اس لئے اسے عید کہتے ہیں، عید کے معنی خوشی کے بھی ہوتے ہیں، جیسے کوئی شخص کچھ پاکر خوش ہوتا ہے تو ہم اس کو کہتے ہیں " آج تو اس کی عید ہوگئی" عربی میں عید کو "عید الفطر "کہتے ہیں، جس کے معنی روزہ نہ رکھنے کی عید یعنی روزے مکمل کرلینے کی خوشی۔حدیث میں عید کی رات کو انعام کی رات سے تعبیر کیا گیا ہے، اللہ تعالی اپنے بندوں سے خوش ہو کر فرشتوں سے پوچھتا ہے بتاؤ ! مزدوروں کی کیا مزدوری ہوگی؟ میرے ان بندوں نے میرے حکم سے صرف میرے لئے روزہ رکھا، (یہ ایک لمبی حدیث کا خلاصہ وترجمانی ہے)۔ یعنی اللہ تعالٰی روزہ داربندوں سے اتنا خوش ہوگا۔ارے آپ اس کو ایسے سمجھئے جیسے ابھی آپ کے سر آپ کے ہوم ورک مکمل کرنے پر خوش نظر آرہے تھے اور مجھ سے مشورہ کر رہے تھے آپ کو انعام دینے کے بارے میں، ٹھیک اسی طرح، جب کہ ہم سب بندے ہیں، ایک بندہ کسی بندے کو کیا دے سکتا ہے، دینے والا تو صرف اللہ ہے ۔ 
‌عید نام ہے خوش ہونے اور خوشی بانٹنے کا، ہم خود بھی خوش ہوں اور دوسروں کو بھی خوشی بانٹے۔آپ دیکھئے نا اس دن عید کی نماز سے پہلے ایک صدقہ نکالا جاتا ہے جسے " صدقہ عید الفطر" یا آسان زبان میں " فطرہ" کہتے ہیں، گھر کا ذمہ دار گھر کے ہر چھوٹے بڑے فرد کی طرف سے پونے دو کلو گیہوں یا اس کی قیمت ایک فرد کے اعتبار سے حساب لگا کر کسی غریب کو پہچاتا ہے. اسی کو فطرہ کہتے ہیں، اور یہ فطرہ کیوں نکالتے ہیں؟ اس لئے کہ رمضان میں ہم سے چھوٹی موٹی غلطیاں ہوئی ہوں تو یہ فطرہ اس کا کفارہ بن جائے اور ہمارے وہ غریب مسلمان بھائی جن کےپاس خوشی منانے کا سامان نہ ہو وہ بھی عید کی خوشی میں شامل ہوجائیں ۔ "فطرہ کفارہ بن جائے" اس کو آپ ایسے سمجھئے کہ آپ نے کسی کو اپنے یہاں نوکررکھاصرف جانوروں کی دیکھ بھال کے لئے،یہی اس کی ڈیوٹی بتائی، اب اگر وہ اپنی ڈیوٹی سے بڑھ کر کچھ اور کام کردیا کرے اپنی مرضی سے تو آپ کو اچھاہی لگےگا،اگر ڈیوٹی میں کبھی کچھ کمی ہوئی تو آپ سوچیں گے جانے دو اگر آج اس نے کچھ کمی کی ہےتو کیا ، روز تو فاضل کام بھی کرتا ہے خود سے ، گویا یہ فاضل کام کرنا چھوٹ موٹی کمیوں کی معافی کا سبب بنا،ٹھیک اسی طرح صدقہ فطر سے روزے کی کمیوں کی تلافی ہوتی ہے۔ 
عید کا دن خوشیاں منانے اور خوشیاں بانٹنےکا دن ہے۔ ایک دفعہ پیارے نبی ص کے زمانے میں عید کا موقع تھا ،سارے لوگ عید گاہ جارہےتھے،ہر طرف چہل پہل تھی ، سبھی خوش نظر آرہے تھے،بچوں کی تو خوشی کاٹھکانا نہ تھا ،کوئی اپنے کپڑےدیکھارہاتو کوئی اپنا ہی جلوہ دکھا رہا،کہیں عید کی بازار کے کھلونوں کا تذکرہ تو کہیں عید کے پکوان کا سلسلہ، کہیں عیدی دینے ولینے کی بات تو کہیں گفتگو ئے دعوت ومدارات، غرض کہ ہر شخص خوش و خرم تھا ۔ اسی راہ سے ہمارے پیارے نبی ص کا گذر ہوا تو آپ کی نگاہ ایک بچے پر پڑی ، جو ایک گوشے میں بیٹھ کر زار وقطار آنسو بہائے جا رہا تھا ،آپ ص اس کےقریب گئے ، پوچھا :بیٹے ! کیوں رو رہے ہیں ؟ سب بچے خوشی منا رہے اور آپ آنسوں بہا رہے ہیں۔بچے نے آنسو پوچھتے ہوئے جواب دیا : میرے ابو اس دنیا میں نہیں رہے،میری امی کی دوسری شادی ہوگئی ، میرے سوتیلے باپ نے مجھے گھر سے نکال دیا،میرا کوئی نہیں تومیں کیسے خوشیاں مناؤں؟ یہ سننا تھا کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں میں آنسو آگئے،بچے کے سر پر دست شفقت پھیرا، فرمایا: ب دشیٹے کیا تم پسند کروگے کہ میں تمہارا باپ بن جاؤں اور عائشہ(رضی اللہ عنہا) تمہاری ماں،یہ سن کر بچہ خوش ہوگیا،پیارے نبی اسے اپنے ساتھ گھر لے گئے۔
عزیز بچو! عید الفطر روزے داروں کے لئے انعام کے ساتھ ساتھ خوشی منانا اور خوشیاں باٹنے کا بھی دن ہے۔ یہی عید کااصل مقصدہے۔ 
عید کے دن کا سب اہم کام خوشی اور شکرانے کے طور پر دو رکعت نماز کی ادائیگی ہے ۔اللہ کے سامنے سجدہ شکر بجالانا،دورکعت نمازکی شکل میں ،اس سی ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ خوشیوں کےبموقع پر بھی ہمیں اللہ کی مرضی کے خلاف کوئی کام نہیں کرنا چاہئیے اور اس کی قائم کردہ حدود کو پھلاندنا نہیں چاہئے ۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اسلام تفریحات سے بالکلیہ منع کرتا ہے،پیارے نبی ص کے زمانے میں عید کے موقع پر کھیل تماشہ دیکھنے دکھانے کا رواج تھا ،خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ پیارے نبی ص نے چادر تان کر یعنی چادر کی آڑ سے مجھے " کھیل تماشہ" دکھایا اور جب میرا جی بھر گیا تب آپ ص نے چادر ہٹائی۔اس واقعہ سے پتا چلتاہے کہ حدود میں رہتے ہوئے تفریحات کا لطف لیا جا سکتا ہے۔
عزیزو! عید میں آپ بھی خوب خوشیاں منائیے مگر خوشیاں منانے کے ساتھ ساتھ خوشیاں بانٹیے بھی۔عیدی خوب وصول کیجئے مگر اس کا مناسب جگہ استعمال کیجئے،اپنے ہم عمر ساتھیوں اور بچوں کو بھی اپنی خوشیوں میں شریک کیجئے تاکہ اللہ اور اس کے رسول کی بھی رضا ہمیں مل جائے۔
اچھا بچو! وقت ختم ہوا،میری اور میرے تمام ساتھیوں کی طرف سے آپ کو آپ کے اہل خانہ کو پیشگی عید کی ڈھیر ساری مبارکباد۔


|| پہلا صفحہ || تعليم || سياست || جرائم؍حادثات || حق و انصاف || گائوں سماج || اچھي خبر || پرديس || ديني باتيں || کھيل || ادب || ديگر خبريں ||


HAUSLA.NET - 2024 ©