حوصله نيوز
چشم و چراغ عالم اعظم گڑھ- قسط چہارم


تحریر: حقانی القاسمی
معین احسن جذبی
مبارک پور کے معین احسن جذبی( 21اگست 1912، 13فروری 2005) ایسے شاعر ہیں جن کے شعروں کی گونج ایوان اقتدار میں سنائی دیتی ہے۔ ان کے یہ چند شعر تو زبا ن زد خلائق ہیں اور ضرب الامثال کی حیثیت رکھتے ہیں:
جب کشتی ثابت و سالم تھی ، ساحل کی تمنا کس کو تھی
اب ایسی شکستہ کشتی کو ساحل کی تمنا کون کرے
اے موج بلا ان کو بھی ذرا دو چار تھپیڑے ہلکے سے
کچھ لوگ ابھی تک ساحل سے طوفاں کا نظارہ کرتے ہیں
مرنے کی دعائیں کیوں مانگو ں جینے کی تمنا کون کرے
یہ دنیا ہو یا وہ دنیا ، اب خواہش دنیا کون کرے
فروزاں ، سخن مختصر اور کداز شب ان کے شعر ی مجموعے ہیں ۔ حالی کا سیاسی شعور ان کا تحقیقی مقالہ ہے ۔وہ آجکل نئی دہلی کے اسسٹنٹ ایڈیٹر بھی رہے۔ اور مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں ریڈر بھی ۔ پہلے ملال تخلص تھا بعد میں جذبی ہوئے ۔ ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے، بعد میں بیزار بھی ہوئے اور یہ ایک فطری رد عمل ہے۔
کسی بھی نظر یاتی نظام سے وابستگی یا بر گشتگی عصری دنیا میں اب کوئی معنی نہیں رکھتی۔ کیونکہ نظریے سے بر ہمی، بیزاری یا دل بستگی پیوستگی میں اپنی ذاتی پسند اور نا پسند بھی شامل ہوتی ہے اور ماحول فضا کابھی کچھ دخل ہوتا ہے۔ میرا ماننا یہ ہے کہ محض کوئی بھی فکر یاتی نظام کسی بھی تخلیقی فن پارے کو دوام عطا نہیں کر سکتا۔ یا کوئی بھی نظریاتی نظام کسی تخلیقی فن پارے کے عروج یا تنزل، ارتقاء، و انحطاط کافیصلہ نہیں کر سکتا کہ جتنی بھی نظریاتی تحریکیں اور رجحانات ہیں، سب پر خود نزع کی کیفیت طاری ہے۔ نظریے، مرتے اور جنم لیتے رہتے ہیں مگر سچی تخلیق ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔ کسی بھی تخلیق کی حرکیت ہی اسے حیات عطا کرتی ہے۔ معین احسن جذبی کا کسی نظریاتی تحریک سے انسلاک و اتصال ہے یا نہیں؟ یہ مسئلہ آج کی دنیا میں زیادہ اہمیت کا حامل نہیں رہا۔ اصل بات ان کے تخلیقی نظام، اس کے درو بست اور اس کے توازن اور تناسب کی ہے۔ جذبی اس لحاظ سے ایک اہم شاعر ہیں کہ ان کا فن یا آرٹ کسی نظریے کی بیساکھی کے سہارے بلند نہیں ہوا ہے۔ بلکہ ان کی تخلیق کی بلند قامتی میں ان کے سوز دروں ، آتش نہانی اور خون جگر کا حصہ ہے۔ ان کا تخلیقی رنگ وآہنگ الگ سے ہی پہچانا جاتاہے۔ انھوں نے زندگی کے رنگا رنگ تجربات اور بو قلموں مشاہدات کو اپنے احساس و اظہار کا پیر ہن عطا کیا ہے۔ صر ف یاس آگیں تخیل یا حزنیہ لے کسی شاعر کو ابدیت کی معراج نہیں عطا کرسکتی۔ اس لئے معین احسن جذبی کی شاعری میں صرف انہی چیزوں کے حوالے تلاش کرنا ایک کار بے مصرف ہی کہلائے گا۔ جذبی کی شعری انفرادیت کی تلاش کے لئے زیادہ پیچ و تاب کھانے کی قطعی ضرورت نہیں۔ ان کے شعری مجموعے ان کی انفرادیت کا اظہار نامہ ہیں۔
ہر بڑا تخلیق کار نظریاتی، مکانی و زمانی محدودات و تعینات سے ماورا ہوتا ہے۔ جذبی بھی ایسے ہی شاعر ہیں جنہیں کسی خاص زمانی مکانی، نظریاتی حصار میں قید نہیں کیا جا سکتا کہ تخلیق اسیر ی نہیں، آزادی کا نام ہے۔ ترقی پسند آواں گا رد غزلیہ شاعری کے افق پر جذبی ایک مہ کامل اور ماہتاب درخشاں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جذبی نے جذبہ ، احساس ، اظہار ، تخیل، بیان کی سطح پر اپنی انفرادیت اور علیحدہ شناخت بر قرار رکھی ہے۔ وہ ہجوم بیکراں کا حصہ نہیں بنے ہیں۔ لیکن المیہ اور وقت کی ستم ظریفی یہ ہے کہ ان کی اعلیٰ معیاری شاعری کے باوجود انہیں Underrattedکیا گیا۔ اور ان سے کم تر درجے کے شاعروں کو عظمتوں کے فلک الافلاک پر بٹھا دیا گیا۔ جب کہ ان کی شاعری میں ابدیت کی قوت موجود ہے اور ان کا شعری سر مایہ اجتماعی حوالے کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ ان کی شاعری ہمیشہ قدر و قیمت کی نقاہ سے دیکھی جائے گی اور ان کا تخلیقی استمرار بھی بر قرار رہے گا۔ ان کی شاعری کا حسن و انبساط کبھی کم نہیں ہو سکتا:
یہ پھول وہ ہیں کہ شاید کبھی نہ مر جھائیں
جذبی نے بالکل صحیح کہا ہے۔ ان کا نغمہ وقتی فغاں نہیںَ بلکہ ابدی نغمہ ہے جو ساز حیات پر ہمیشہ تھرکتار ہے گا۔ ان کی شاعری کے چمن میں جو پھول ہیں اس کی خوشبو ہمیشہ مشام جاں کو معطر کرتی رہے گی۔


|| پہلا صفحہ || تعليم || سياست || جرائم؍حادثات || حق و انصاف || گائوں سماج || اچھي خبر || پرديس || ديني باتيں || کھيل || ادب || ديگر خبريں ||


HAUSLA.NET - 2024 ©