حوصله نيوز
تشکر و امتنان.........مولانا طاہر مدنی


تحریر: طاہر مدنی
آزمائش کے وقت انسان بہت کچھ سیکھتا ہے، زندگی میں آزمائش آتی رہتی ہے اور خاص طور پر اہل ایمان کی آزمائش زیادہ سخت ہوتی ہے۔
آزمائشیں اے دل! سخت ہی سہی لیکن
یہ نصیب کیا کم ہے، کوئی آزماتا ہے
4 فروری 2020 بلریاگنج میں خواتین ایک پرامن پروٹیسٹ کر رہی تھیں، سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خلاف، ملک کے مختلف مقامات پر اس طرح کے پروٹیسٹ ہورہے تھے، جن میں ہندو مسلم سب شریک تھے. شہریوں کا یہ بنیادی حق ہے جس کی ضمانت دستور نے دی ہے۔
بلریاگنج میں پولیس ایکشن ہوگیا، پروٹیسٹ پر شب خون مارا گیا، عورتوں پر حملہ کیا گیا، ان کو گالیاں دی گئیں، متعدد خواتین زخمی ہوگئیں، ڈر اور خوف کا ماحول پورے قصبے میں پیدا کردیا گیا، 20 افراد بشمول ایک خاتون، کو گرفتار کر لیا گیا، یہ سب کاروائی 5 فروری کی صبح تک انجام دی گئی، بعد میں دوپہر ایک بجے کے بعد ایک جھوٹی ایف آئی آر داروغہ کی جانب سے لکھی گئی جس میں کل 35 افراد کو نامزد کیا گیا، بعد میں چار کا اضافہ کر دیا گیا اور تعداد 39 تک پہونچا دی گئی، گمنام کی تعداد الگ ہے، یہ بھی ایک اہم سوال ہے کہ گرفتار شدگان کے علاوہ باقی نامزد افراد کی نشاندہی کن لوگوں نے کی؟ وہ ہمارے سماج کے ناسور ہیں اور ان کی شناخت بہت ضروری ہے۔
میری گرفتاری سب سے پہلے عمل میں آئی تھی کیونکہ حکام کی درخواست پر خواتین کو سمجھانے کی کوشش میں نے کی تھی. ہمیں فجر کی اذان کے بعد اعظم گڑھ پولیس لائن پہونچا دیا گیا، فجر کی نماز ہم نے وہیں ادا کی، شام پانچ بجے تک وہاں رکھا گیا لیکن انتظام اتنا اچھا تھا کہ کھانا تو دور کی بات ہے ایک کپ چائے بھی پلانے کا کوئی روادار نہیں ہوا، ایسا لگتا ہے کہ پولیس کی ٹریننگ میں پہلی چیز انسانیت کے جذبے کو ختم کر دینا ہوتا ہے۔
سہ پہر تک ہم انیس افراد وہاں اکٹھا ہوچکے تھے، ایک خاتون جن کی گرفتاری ہوئی تھی ان کو کہیں اور رکھا گیا تھا، شام کو ہمیں ضلع اسپتال میڈیکل چیک اپ کے لیے لے جایا گیا، خاتون کو بھی لایا گیا جو بمشکل چل پا رہی تھیں، غنیمت یہ ہوئی کہ ان کو وہیں سے مچلکے پر رہا کردیا گیا. ہم انیس افراد کو میڈیکل کے بعد مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا اور اس کے بعد جیل بھیج دیا گیا۔
اس کے بعد مقدمہ کی پیروی کا مرحلہ شروع ہوا، میں نے آغاز ہی میں یہ کہ دیا تھا کہ سب کی پیروی ایک ساتھ ہوگی، اطمینان رکھیں، لیکن بوجوہ پیروی دو خانوں میں تقسیم ہوگئی. ہم لوگوں پر 19 دفعات لگائی گئی تھیں جن میں متعدد بہت سنگین تھیں اور ایسا کیوں نہ ہوتا جبکہ ایس پی صاحب کی ہدایت تھی کہ ان لوگوں پر ایسی دھارائیں لگاؤ کہ ان کی زندگی برباد ہو جائے۔
ضلعی حکام تسلی دیتے رہے کہ دفعات کم ہوجائیں گی اور تاریخ درخواست ضمانت یہاں آگے بڑھتی رہی اور زخمی خواتین کی جانب سے کراس کیس بھی نہ ہوسکتا. اس طرح کافی وقت برباد ہوگیا اور بالآخر 42 دن بعد 17 مارچ کو ضلع جج نے تمام لوگوں کی درخواست ضمانت خارج کردی. اب ہائی کورٹ جانے کا مرحلہ آگیا، میں نے صاف کہدیا کہ جن کو اعتماد ہے میں ان سب کی پیروی وہاں کروں گا، تمام ہمراہیوں نے کہا کہ یہاں کا حشر ہم دیکھ چکے ہیں، آپ ہم سب کی پیروی ہائی کورٹ میں کرائیں، ہمیں پورا اعتماد ہے. اس مرحلے پر عبد الکریم جمال الدین اور بابو جاوید جمشید احمد نے ہمارا تعاون کیا، ہائی کورٹ کے ایک تجربہ کار سینئر وکیل سے رابطہ ہوا اور وہاں جانے کی تیاری شروع ہوگئی کہ کورونا کی وبا کی وجہ سے لاک ڈاؤن کا سلسلہ شروع ہوگیا. سب کام ٹھپ ہوگیا، عدالتیں بند ہوگئیں، آنا جانا مشکل ہوگیا، جیل میں ملاقاتیں بند ہوگئیں اور طرح طرح کی دشواری پیدا ہوگئی. ان دونوں حضرات نے اس دوران جیل میں ضرورت کے سامان پہونچانے کا بندوبست کیا اور شدید پریشانی کے دور میں کام آئے. ایک مدت گزرنے کے بعد ہائی کورٹ میں آن لائن درخواست جمع کرنے کی شکل پیدا ہوئی تو ہمارے وکیل کے پی پاٹھک صاحب نے فورا درخواست داخل کردی. ہماری طرف سے پہلے داخل کی کیونکہ ایمرجنسی ثابت کرنے کیلئے گراؤنڈ کی ضرورت تھی، ہمارے ساتھ ایج فیکٹر، بیماریاں اور بائی پاس سرجری جیسی مضبوط بنیادیں موجود تھیں، مختلف مراحل سے گزرتی ہوئی، ہماری درخواست سماعت کیلئے منظور ہوگئی اور رخنہ اندازی کے باوجود اللہ کے کرم سے 15 مئی کو ہماری ضمانت منظور ہوگئی اور 18 مئی کو رہائی ہوگئی. پہلے ہم نے طے کیا تھا کہ سب سے آخر میں باہر آئیں گے لیکن کیس کی پیروی میں تیزی لانے کیلئے جلد باہر آنے کا فیصلہ کیا. آنے کے بعد وکیل صاحب سے تفصیل سے مشورے کے بعد ایک ترتیب بنائی گئی اور سلسلہ وار ہمراہیوں کی درخواستیں داخل ہوئیں اور بحمد اللہ 22 جون تک سب کی رہائی ہوگئی. اس دوران ہمارے وکیل نے الہ آباد ہائی کورٹ میں جو انتھک محنت کی ہے وہ لائق صد تحسین ہے. بعض ایام میں تو ایسا ہوا کہ صبح نو بجے سے شام پانچ بجے تک وہ کورٹ میں موجود رہے. اللہ انہیں بہترین بدلہ دے۔
ہائی کورٹ سے ضمانت کی منظوری کے بعد ایک اہم مرحلہ ضلعی عدالت سے رہائی کا حکم نامہ پاس کرانے کا ہوتا ہے، یہاں کئی کام ہوتے ہیں، ایک کام یہ بھی بڑھ گیا تھا کہ ایک نئی دفعہ جو بڑھ گئی ہے اس کی ضمانت یہاں سے کرانا، ضمانت داروں کے کاغذات داخل کرنا... یہ سب کام یہاں ایڈووکیٹ طلحہ عامر اور سینئر وکیل سنجے مشرا جس مستعدی سے انجام دے رہے تھے وہ قابل تعریف ہے۔
ضمانت داروں کو تیار کرنا، ان کاغذات بنوانا، انہیں کورٹ بھجوانا، یہ سب کام عبدالکریم اور بابو جاوید صاحبان اتنی مستعدی سے انجام دے رہے تھے کہ ہمیں زیادہ زحمت نہ اٹھانی پڑی، انہوں نے اس کام کو اتنی ذمہ داری اور دلچسپی سے انجام دیا کہ جیسے خود ان کے اپنے بچوں کا معاملہ ہو، اللہ جزائے خیر سے نوازے آمین. اس دوران تھانے سے متعلق جو کام تھے ان کو بھی بحسن و خوبی یہ حضرات انجام دے رہے ہیں۔
ضمانت دار حضراتِ بھی شکریے کے مستحق ہیں، فورا اس کیلئے تیار ہوگئے کہ ان نوجوانوں نے قومی کاز کیلئے قربانی دی ہے. ہم بخوشی ان کی ضمانت لیں گے، اللہ ان سب کو جزائے خیر دے آمین
جہاں تک ضمانت کرانے میں اخراجات کا مسئلہ ہے تو اللہ نے ایسے اسباب مہیا کردیے کہ کوئی زحمت نہیں ہوئی. جماعت اسلامی اتر پردیش مشرق، علماء کونسل اور بعض اہل خیر حضراتِ میرے ساتھ کھڑے ہوگئے کہ اخراجات کی فکر بالکل نہ کریں، بے گناہوں کی رہائی کرائیں، ہم آپ کے ساتھ ہیں، اللہ انہیں حسن تعاون کے لیے اجر عظیم عطا فرمائے اور ہر طرح کی برکتوں سے نوازے. آمین
تجربہ شاہد ہے کہ آپ خلوص کے ساتھ قدم آگے بڑھائیں، اعتماد اور بھروسہ پیدا کریں تو اللہ غیب سے اسباب فراہم کر دیتا ہے و من یتوکل علی اللہ فھو حسبه، اور جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے تو اللہ اس کیلئے کافی ہوتا ہے.
ابھی ایک مرحلہ پورا ہوا ہے ابھی کئی مراحل باقی ہیں، دیگر نامزد افراد کی ضمانت، مقدمہ کی پیروی اور تمام افراد کی براءت ثابت کرنا، بہت کچھ باقی ہے، ان شاء اللہ پوری محنت کے ساتھ ان امور کو انجام دیا جائے گا اور اللہ کی ذات پر پورا بھروسہ ہے کہ مدد کرے گا اور کامیابی حاصل ہوگی ان شاء اللہ
آپ لوگوں کی پر خلوص دعاؤں کی ضرورت ہے. جزاکم اللہ خیرا


|| پہلا صفحہ || تعليم || سياست || جرائم؍حادثات || حق و انصاف || گائوں سماج || اچھي خبر || پرديس || ديني باتيں || کھيل || ادب || ديگر خبريں ||


HAUSLA.NET - 2024 ©