حوصله نيوز
مراسلہ:  شرفاء اور اعظم گڑ ھ کے نوجوان


کاشف خان
سن۱۹۴۷ میں ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ دو سانحے گزرے، ایک تو اس کے ملک کا بنٹوارا ہوا  اوردوسرے اس  کی قوم کے ادیب، دانشور، اور نقّادوںکا ایک بڑا طبقہ اس ملک کو خیرآباد کہہ کر ملک پاکستان میں مقیم ہوگیا۔ ضلع اعظم گڑھ بھی اس سے اچھوتا نہ رہا، اس ضلع کا بھی ایک بڑا اور ترقی پسند طبقہ ہجرت کر پاکستان جابسا۔لیکن اس وقت کے ماحول اور معاشرےنےلوگوں میں بیداری پیدا کر دی تھی جس کی وجہ سے ضلع کے کافی نوجوان بیرون ملک مثلا ملیشیا، سنگاپور ، سعودی عرب، دبئی وغیرہ ذرائع معاش کے لیے گئے۔ تقریباً۱۹۶۰ سے لے کر ۱۹۹۰ تک کے درمیان میں اچّھا پیسہ کمایا اور خود کو مستحکم کرنے کی غرض نے ضلع کی ایک پیڑھی نے اپنی زندگی قربان اس لیے کر دی کہ ان کی آنے والی نسل تعلیم یافتہ ہو، خود مختار ہو اور اپنا اور اپنی قوم کا مستقبل روشن کرے۔ اس ضمن میں اعظم گڑھ کے کچھ شرفاء نے ضلع میں بہتر تعلیمی ادارہ قائم کرنےاور اس میں بہترین تعلیم مہیاکرانےکے نام پر بےپناہ چندہ حاصل کیا۔
لیکن ۱۹۹۰ کے بعد سے جب نوجوان طبقہ اچھی تعلیم کی طرف مائل ہوا تو اسے اچھےاسکول اور کالج کی کمی محسوس ہوئی جس کی وجہ سے اُس نے الہ آباد، علیگڑھ اوردہلی جیسے شہروںکا رخ کیا ۔جب شہر میں جا کر مستحکم ہونا شروع ہوا تو حکومت نے کچھ نوجوانوں کانام نہادانتہا پسندتنظیموں کے ساتھ جوڑ دیاجس سے قوم کا مورال گرگیا۔اور آج  خطہ اعظم گڑھ میں تعلیم کا معیار بےحدنچلی سطح کا ہے۔ لیکن سوال ہے کہ ایسا  کیوں ہوا؟ کیا کبھی کسی اعظم گڑھ کے کسی فرد نے قوم کی اس بدحالی پر غور و فکر کیا؟ آج ہمارے نوجوان لڑکے لڑکیاں بازاروں اور سوشل میڈیا کی زینت، فیشن اختیار کرنے مہنگے اور لگژری گیجٹس کی دیوانگی میں ہی صرف ملوث پائے جاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟
کیونکہ ضلع کے چند نام نہاد شرفا حضرات نے دیمک کی طرح اس زرخیز اور توانائی سے بھرپور قوم کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے۔ اُن میں کچھ علاقائی سیاسی پارٹیوں کے لیڈران کا ہاتھ ہیں جنہوں نےنوجوانوں کو اکٹھا کر کےڈی ایم، مجسٹریٹ، ایس پی جیسے عہدیداران کو گالیاں بکیں، اور ایسے عہدے کو پامال کیا دوسری جانب شبلی نیشنل کالج کی انتظامی کمیٹی کے لوگو ں نے نااہل لوگوں اوراپنے رشتےداروں کی تقرری کرائی، کمیٹی کے ممبر ایسے چُنےگئے جن میں تعلیم کی کوئی رمق نہیں، کوئی شعورنہیں،اورباشعور لوگو کوادارے میں کھڑے ہونے نہیں دیا۔ اور اس طرح کی ساری تنظیموں نے۱۹۹۰ سے لے کر اب تک بچّوں کا مستقبل اندھیرے میں ڈال رکھاہے اور زمانے بھر میں ایسے لوگ خود کو شرفاکہلواتے ہیں کسی مجلس میں آپ دیکھیں تو محسوس کریں گے کہ ان  کےکپڑوں کی سفیدی اور کلف لگا ہوا پائے جامہ ان کے کردار کی ترجمانی کرتا ہوگا پر اس سفیدی کے پیچھے اپنے ضلع کے بچّوں کا حال اور مستقبل کا گلا گھونٹا ہوا دیکھ سکتے ہیں۔اس لئے اب وقت آگیا ہے کے ایسی طاقتوں سے اپنے بچّوں کے مستقبل کو آزاد کرایا جائے اور انہیں ایک بہتر ماحول دیا جائے اور تعلیمی سرگرمیوں میں شامل کیاجائے۔
نوٹ: مراسلات یا مضامین لکھنے والی کی ذاتی رائے ہوتے ہیں ان سے حوصلہ نیوز کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔


|| پہلا صفحہ || تعليم || سياست || جرائم؍حادثات || حق و انصاف || گائوں سماج || اچھي خبر || پرديس || ديني باتيں || کھيل || ادب || ديگر خبريں ||


HAUSLA.NET - 2024 ©