حوصله نيوز
ھذا من فضل ربی


تحریر: اختر سلطان اصلاحی 
سب سے بڑی آزمائش اس وقت آئی جب ابا کے انتقال کے چار پانچ ماہ بعد چھوٹی بہن نے ایک روز کہا:
"بھیا ابا کی خواہش تھی کہ جائیداد اسلامی شریعت کے مطابق تقسیم ہو، بڑی باجی بھی بہت پریشان ہیں، اگر دوکانیں ان کو مل جاتیں تو ان کے بھی گزر بسر کا سامان ہوجاتا، میرے شوہر بھی کئی ماہ سے بیمار پڑے  ہیں. گٹھیا نے ان کو کسی لائق نہیں چھوڑا ہے. شائد آپ کو معلوم نہ ہو کہ ابا مرحوم ہر ماہ ہم دونوں بہنوں کے گھر کا پورا راشن کرانے کی دوکان سے بھجوا دیا کرتے تھے، اسی طرح وہ وقتا فوقتاً ہم دونوں کی مالی مدد بھی کیا کرتے تھے.،،
چھوٹی بہن کی بات سن کر میں سوچ میں پڑ گیا، بات تو اس کی درست تھی، جائیداد کی تقسیم کے تعلق سے والد صاحب کئی بار مجھے بھی تاکید کر چکے تھے. ابا حضور کھیتی باڑی، مکان، نقد کے علاوہ قصبے کی بازار میں  بارہ دوکانیں بھی چھوڑ گئے تھے جن کا کرایا مجھے ماہانہ ایک لاکھ بیس ہزار ملتا تھا، میری دو بہنیں تھیں اور میں اکیلا تھا. کھیت کی تو مجھے زیادہ فکر نہ تھی مگر شرعی اعتبار سے تقسیم کرنے میں چھ دوکانیں بہنوں کو دینی پڑ جاتیں اور یہ ایک بڑا نقصان ہوتا۔
مجھے سوچ میں غرق دیکھ کر بہن پھر بولی:
"ضروری نہیں ہے کہ آپ پورا حصہ دیجیے، لیکن کچھ نہ کچھ ضروردے دیجیے، بھیا ہم لوگ آپ سے کچھ نہ لیتے مگر کیا کریں، مجبور ہیں، ضرورت شدید ہے.کچھ غلطی ہوئی ہوتو معاف کیجیے گا،،
چھوٹی بہن اتنا کہتے کہتے رونے لگی۔
میں نے اسے تسلی دی اور بولا:
" انشاء اللہ میں تم لوگوں کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور کروں گا،  مجھے معلوم نہ تھا، کل میں ان شاء اللہ راشن کا سارا سامان بھی تم دونوں کے گھر بھجوا دوں گا، تمہارے دونوں بچوں کی پوری سال کی فیس بھی جمع کردیتا ہوں، نکہت آبا کے گھر بھی آج شام میں جاوں گا، ان شاء اللہ ان کی بھی ساری ضرورت پوری کردوں گا.،،
اگلے دن میں نے طالب بھائی کرانے والے سے ملاقات کی، ابا انھیں کے یہاں سے سارا سامان بھجوایا کرتے تھے. طالب بھائی نے بتایا کہ دونوں گھروں کا مہینے بھر کا پورا سامان بارہ سے پندرہ ہزار روپے ہوتا تھا. میں نے دونوں بہنوں کو راشن بھجوایا اور اگلے دن دونوں کو روزمرہ اخراجات کے لیے پانچ پانچ ہزار روپے بھی دیے۔
کئی ماہ تک پابندی سے یہ سلسلہ چلتا رہا، ایک دن ہمارے بڑے بہنوئی آے کہنے لگے:
"عارف سنا ہے سنار اپنی دوکان خالی کرنے والا ہے، میں کپڑے کی ایک دوکان کھولنا چاہتا ہوں، وہ دوکان مجھے دے دو.،،
میں نے سوچا اب تو دوکان ہاتھ سے نکلی، یہ تو ماہانہ دس ہزار روپے نقصان کا معاملہ تھا، میں نے جلدی سے بہانہ کیا اور ان سے کہا:
" مجھے نہیں معلوم تھا کہ آپ کو دوکان کی ضرورت ہے، میں نے تو ایک دوکاندار سے بات پکی کر لی ہے، اب آئندہ کوئی دوکان خالی ہوگی تو آپ کو بتاوں گا.،،
یہ تو میں نے ایک بات بنا لی تھی، ہاں یہ بات الگ تھی کہ ہماری دوکانیں بہت موقع پر تھیں، اس لیے ایک دن بھی خالی نہ رہتی تھیں، ہمیشہ دوکاندار لائن لگاے رہتے تھے۔
دو تین روز بعد میں نے خالی دوکان کا ایگریمنٹ ایک دوسرے دوکاندار سے کر لیا۔
جائیداد کے سلسلے میں والد صاحب کی وصیت اور تاکید، چھوٹی بہن کی خواہش اور پھر میرا تھوڑا بہت دینی  شعور مجھے مستقل ذہنی طور سے پریشان رکھتا، اکثر ذہن میں یہ خیال کچوکے لگاتا کہ میں بہنوں کا حق غصب کر کے ان پر ظلم کر رہا ہوں، پھر خود کو یہ کہہ کر تسلی بھی دینے لگتا کہ اس معاملے میں کہاں میں اکیلا ہوں، گاوں کی آبادی تین سو گھر سے کم نہ تھی مگر کسی گھر میں جائیداد اسلامی طریقے سے تقسیم نہ ہوئی تھی۔
مولوی گلفام کا گھرانہ تو بہت دیندار تھا مگر پچھلے سال جب ان کے ابا کا انتقال ہوا تو انھوں نے بھی اپنی بہنوں کو ان کا شرعی حصہ نہیں دیا تھا. البتہ ایک دن انھوں نے مسجد میں تقریر کے دوران خبر دی تھی کہ ہم نے اپنی بہنوں کو جائیداد، مکان اور کھیت میں حصہ دینے کے لیے بلایا تھا مگر سب بہنوں نے اپنی مرضی سے اپنا  اپنا حصہ بھائیوں کو دے دیا ہے۔
مولوی گلفام صاحب کو تو اس طرح کا ڈرامہ کرنے کی ضرورت تھی، وہ اکثر اسلامی طریقے سے جائیداد کو تقسیم کرنے کے موضوع پر تقریر وغیرہ کرتے رہتے تھے مگر میرے ساتھ تو ایسی کوئی مجبوری نہ تھی۔
والد کے انتقال کے دس دن بعد ہی میں ایک وکیل کے ذریعہ تمام جائیدادیں اپنے نام کرواچکا تھا، یعنی قانون بھی پورے طور سے میرے ساتھ تھا. ہاں میں نے یہ پختہ ارادہ کر لیا تھا کہ بہنوں کی ضروریات کا پورا خیال رکھوں گا اور انھیں والد سے بھی بڑھ کر تعاون دینے کی کوشش کروں گا۔
اگلے کئی ماہ تک میں دونوں بہنوں کی ساری ضروریات کی تکمیل کرتا رہا. یہ گھاٹے کا سودا نہیں تھا، اگر میں شرعی طریقے سے دوکان ہی تقسیم کر کے دیتا تو ہر ماہ ساٹھ ہزار کا نقصان ہوتا اس طرح پندرہ بیس ہزار میں کام چل جاتا تھا۔
میرا ضمیر بھی اب بہت حد تک مطمئن ہو چکا تھا.بہنیں بھی اب خاموش تھیں، ظاہر ہے وہ کوئی زور زبردستی تو نہیں کر سکتی تھیں۔
اشرف چچا ابو کے بے تکلف دوستوں میں سے تھے، وہ سال میں ایک دفعہ ہمارے گھر آتے اور کئی دن قیام کرتے، وہ ایک اسلامی تنظیم کے سرگرم ممبر تھے، ابا ان کی تنظیم کو سالانہ مالی امداد بھی کرتے تھے. ابا کے انتقال کے بعد وہ تعزیت کے لیے بھی تشریف لائے تھے. آج وہ پھر ہمارے یہاں تشریف لائے تھے، میں نے ان کی ضیافت کا پرتکلف انتظام کیا اور ان سے درخواست کی کہ آپ دو تین روز ہمارے یہاں ضرور قیام کریں بالکل اسی طرح جس طرح ابا کے زمانے میں قیام کرتے تھے۔
رات کھانے کے بعد اشرف صاحب سے مختلف موضوعات پر گفتگو جاری رہی. اچانک اشرف صاحب نے دونوں بہنوں کی خیریت دریافت کی۔
میں نے اشرف صاحب کو دونوں کی داستان سنائی، بہنوں کی مدد اور حاجت روائی  کا خاص طور سے ذکر کیا، آئندہ بھی مستقل ان کے تعاون کی یقین دہانی کروائی۔
اشرف صاحب نے میری بات پوری توجہ سے سنی اور پھر بولے:
"عارف بیٹا بہنوں کے ساتھ تمہارے حسن سلوک سے تو میں بہت خوش ہوں، اللہ تمہیں جزاے خیر دے. لیکن میری ایک بات بہت توجہ سے سنو، جس طرح والد صاحب کی جائیداد کے تم مالک ہو اسی طرح تمہاری بہنیں بھی مالک اور حصہ دار ہیں. یہ حصہ اللہ تعالیٰ نے متعین کیا ہے، قرآن مجید میں ان کو حدود اللہ یعنی اللہ کی متعین حد کہا گیا ہے اور جو لوگ ان متعین حدود میں ظلم و زیادتی کریں گے انھیں ظالم کہا گیا ہے. صحیح بات یہ ہے کہ بہنوں کا حق انھیں دینا تمہاری ذمہ داری ہے. تم بہنوں کے ساتھ جو حسن سلوک کر رہے ہو اس کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے ایک ڈاکو کسی کا پورا مال اسباب لوٹ لے اور پھر اسی میں سے تھوڑا سا انھیں نکال کر واہس دے دے. بیٹا اللہ سے ڈرو، اللہ نے تم کو بہت کچھ دیا ہے، بہنوں کا حق غصب کرکے اپنے لیے دوزخ تیار نہ کرو، جو کچھ تمہارے حصے میں آے گا اسی میں اللہ برکت دے گا،.،،
اشرف صاحب دیر تک مجھے سمجھاتے رہے، میں نے اشرف صاحب کی تنظیم کے لیے دس ہزار روپیہ دینا چاہا تو وہ مسکراے اور بولے:
"بیٹا! میں اس میں سے کوئی رقم نہیں لے سکتا، تمہارے والد حلال و حرام کا بہت لحاظ رکھتے تھے اس لیے ہم ان سے مالی تعاون قبول کرتے تھے، کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ اللہ تعالی طیب اور پاکیزہ ہے اور حلال و طیب ہی قبول کرتا ہے.اگلے سال میں دوبارہ آوں گا تب تک تم والد صاحب کی جائیداد سے ان کی بیٹیوں کا حق دے دینا، اللہ تمہارے رزق میں برکت دے.،،
اشرف صاحب تو چلے گئے مگر میں کئی دن تک فکر، پریشانی اور کشمکش میں مبتلا رہا، ان کی باتیں رہ رہ کر مجھے یاد آتیں اور میرے ضمیر کو لعنت ملامت کرتیں. ایک طرف ماہانہ ہزاروں روپے کا نقصان تھا دوسری طرف اللہ کے احکام کی پابندی، اس کی سزا کا خوف۔
یہ کوئی آسان فیصلہ نہ تھا مگر اسے میں فضل الہی سمجھتا ہوں کہ ایک ہفتے کے بعد میرا دل پورے طور سے مطمئن ہوگیا، میں نے اپنی دونوں بہنوں کو بلایا. دونوں سے معافی مانگی اور ان کی جائیدادیں ان کے حوالے کردیں۔
بہت سے لوگوں نے میرے اس فیصلے پر حیرت کا اظہار کیا، کچھ قریبی لوگوں نے مجھے بے وقوف بھی کہا مکر میں اس فیصلے پر مطمئں تھا. نہ جانے یہ احکام خداوندی پر عمل کا نتیجہ تھا یا غریب بہنوں کی دعاوں کی برکت کہ چند ماہ میں ہی میرے کاروبار میں حیرت انگیز ترقی ہوئی. اب میں پہلے سے زیادہ مالدار اور خوشحال آدمی تھا۔
چند ماہ بعد میں نے اشرف صاحب کو پوری صورتحال بتائی تو وہ بہت خوش ہوے، کہنے لگے:
"تم پر اللہ نے بڑا فضل کیا، تم کو مال حرام کی نحوست سے بچایا اور رزق حلال عطا کیا، یقینا یہ تمہارے والد کی پرہیزگاری اور دعاوں کی برکت ہے. بیٹا زندگی میں کتنا بھی نقصان ہو کبھی شریعت کی راہ نہ چھوڑنا۔
میں نے اپنے مکان کے گیٹ پر موٹے حروف میں ھذا من فضل ربی (یہ سب میرے رب کا فضل ہے) لکھوایا تھا۔
لیکن میرے رب کا مجھ پر کیا فضل ہوا تھا یہ بہت کم لوگوں کو معلوم تھا۔


|| پہلا صفحہ || تعليم || سياست || جرائم؍حادثات || حق و انصاف || گائوں سماج || اچھي خبر || پرديس || ديني باتيں || کھيل || ادب || ديگر خبريں ||


HAUSLA.NET - 2024 ©