حوصله نيوز
چشم و چراغ عالم اعظم گڑھ- قسط ششم


تحریر: حقانی القاسمی
اعجاز اعظمی
اعجاز اعظمی کی نظموں سے ان کے حساس تخلیق وجود کا پیکر ابھرتا ہے۔ایک ایسا وجود جس کے دل میں سارے جہاں کے در د کی آگ سلگ رہی ہے۔ اور وہ دل اپنے کینوس پر اپنے عصر کے واردات واقعات ، اور سانحات کو نقش کر رہا ہے۔شاعر کی بیدار نگہی اسے عالمی گاؤں سے جوڑ دیتی ہے۔اعجاز کی نظموں میں عصر ی واردات کی ایسی بہت سی تصویریں نمایاں ہیں جن میں ان کا ذہنی کرب بھی اپنی پوری شدت کے ساتھ نظر آتا ہے۔ایک نظم کا یہ انقلابی اور احتجاجی لہجہ دیکھئے :
یہ لبنان میں آج کیا ہو رہاہے
جدھر دیکھئے صرف بم گر رہا ہے
میں جل رہے ہیں مکاں جل رہے ہیں
سیاست زدہ جسم و جاں جل رہے ہیں
یہ مظلومیت کے نشاں جل رہے ہیں
ہے فینٹم لڑاکو جہازوں کے ذریعہ
کئی دن سے عربی محلوں پر یورش
جو عربوں کے پٹرول سے چل رہے ہیں
یہا ں شرقِ اوسط میں صد ہا برس سے
یہ بازی گراں سامراجی درندے
سدا کشت و خوں میں ملوث رہے ہیں
وہی سامر اجی درندے جواب بھی
صیہونیت کے لبادے پہن کر
فلسطینیوں کو ذبح کر رہے ہیں
نئے شرق اوسط کی تاریک راتوں
کے بوجھل افق سے
نہا یا ہوا خون میں سرخ سورج
ابھرنے لگا ہے
ابھر کر رہے گا
شہیدوں کا خوں
رنگ لا کر رہے گا
عالمی سامراجی سیاست کی سفاکی کے ساتھ ساتھ انہیں سماجی اقدار کی زبونی اور زوال کا بھی احساس ہے۔ جس کی شکلیں سیکس فار سیل اور تہذیب ڈالر جیسی نظموں میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
کہیں چھلکتی ہے میکدوں میں
کہیں سر عام ڈھل رہی ہے
نئی گپھاؤں میں۔۔۔۔۔۔
حرم سراؤں۔۔۔۔۔۔
نگار خانوں میں چشم و لب سے
کشید ہو کر پگھل رہی ہے
دبی دبی خواہشوں کے کوندے
لپک رہے ہیں دل جواں میں
حصول نان جویں کی چاہت
رباب دل میں شرر فشاں ہے
مہکتے گلزار جسم و جاں میں
گداز و شیریں
جوان و نغمہ نواز گوشے
حدیث آدم سنا رہے ہیں
ازل سے اب تک
خدا کے بندے
خد ا کی اس پاک سر زمیں پر
گناہ آدم اگا رہے ہیں
(سیکس فار سیل)
یہ ڈالر کیا ہے؟
میرا حال و مستقبل
اسی ڈالر کی نسبت سے
مری پہچان ہوتی ہے
یہ نمبر دو کے دھندے کی کرامت ہے
تقاضا ہے یہی تہذیب نو کا
سابقہ قدر یں بدل ڈالو
زمانہ جب بدلتا ہے
تو قدریں بھی بدلتی ہیں
سمجھ کر وقت کے تیور
نئی تہذیب میں ڈھل جا
اسی میں سر خروئی ہے
یہی معیار ہستی ہے
یہی تہذیب ڈالر ہے
اعجاز اعظمی نے گویا کہ نظم اور غزل دونوں میں طبع آزمائی کی ہے۔ مگر ان کے نظمیہ اظہار میں نئی دشائیں ملتی ہیں۔ جبکہ غزلیہ شاعری کلاسیکیت کی سمت میں سفر کرتی نظر آتی ہے۔ غز ل میں بھی انھوں نے کہیں کہیں ذولسانی تجرے کئے ہیں۔ جو ان کی لسانی مہارت کا ثبوت ہیں جیسے غزل کایہ شعر:
کرتے ہو ڈس گریس مجھے کیوں گلی گلی
دس ایٹی چیوڈ از ان فرینڈلی
ان کی کئی غزلیں داخلی احساسات اور تجربات کی عکاسی کرتی ہیں۔غزل کے یہ چند شعر ان کے باطنی ارتعاشات کی خوبصورت ترجمانی
کرتے ہیں۔
برہ کی آگ میں میرا کنوارا پن سلگتا ہے
کہ تجھ بن اے ساجن میرا جیون سلگتا ہے
تمہار ی جب مدھر یادیں مجھے آکر ستاتی ہیں
میر ی انگڑائیوں کی آنچ سے درپن سلگتا ہے
اعجاز کی شاعری میں طنز کی نشتریت اور مزاح بھی ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری کو نئے تجربوں سے سجایا اور سنوارا ہے۔ ان کا مجموعہ کلام' اعجاز سخن' ان کی تخلیقی ہنر مندی کا مکمل اظہاریہ ہے۔ان کے لفظیاتی اور فکریاتی نظام پر گفتگو طوالت چاہتی ہے المختصر یہ کہ اعجاز اعظمی ہمارے عہد کے ان شاعروں میں ہیں جنہیں سنجیدگی سے پڑھا جائے تو سخن کے بہت سے نکتے اور تخلیقی فکر و اسلوب کے جوہر تابدار سامنے آئیں گے۔


|| پہلا صفحہ || تعليم || سياست || جرائم؍حادثات || حق و انصاف || گائوں سماج || اچھي خبر || پرديس || ديني باتيں || کھيل || ادب || ديگر خبريں ||


HAUSLA.NET - 2024 ©