حوصله نيوز
با با کی یاد میں آنکھیں بھر آئیں


تحریر: ریان احمد منجیرپٹی 
میں جس گا ؤں سے تعلق رکھتا ہوں اسے قدرت کی بوقلمونیوں اور رنگینیوں نے سجا رکھا ہے اس گاؤں کے حسین نظارے سامان دل بستگی اور اپنی فطری رعنائیوں سے کیف آگیں ہیں۔ کنور ندی کے کنارے آباد یہ گاؤں اپنی قدامت اور  ثقافت کے اعتبار سے ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے ۔اس گاوں کا اصل نام بنجر پٹی تھا۔ امتداد زمانہ کے باعث ہر زبان خاص و عام پر منجیر پٹی کا نام مشہور ہوگیا ۔  اس گاؤں میں ہمارا ایک بڑا خاندان ہے اس کی چار شاخیں ہیں۔  اس کی تین شاخوں سے کئی گھر وجود میں آئے البتہ ہماری شاخ سے کل چھ گھر ہیں ۔ ہمارے گھر سے متصل ہمارے خانوادے کے ایک بزرگ کا گھر ہے جن کا تعلق ہماری شاخ سے تو نہیں ہے لیکن کبھی ایسا بھی محسوس نہیں ہوا کہ وہ ہم میں سے نہیں ہیں ۔جنہیں ہم بابا کہہ کر پکارتے تھے ۔ بڑے متقی ، پرہیزگار اور خدا ترس انسان تھے  ، اخلاص مند ، سادہ لوح ، حفظان صحت سے متعلق اصولوں کا بڑا خیال رکھتے ۔ کھانے پینے میں احتیاط اور اہتمام دونوں کرتے ۔  ہمیں بھی اس کی تلقین کرتے۔  میں اپنے گھر کے باہر کلہاڑ * میں  پڑھائی کرتا تھا تو اکثر بابا پاس آجاتے اور پندو نصائح کرتے ۔ اگر میرے گلے میں کبھی خراش ہوتی اور  گلا بیٹھ جاتا  تو مجھ سے کہتے:
" رُکا تنی سن لا پھر پڑھیا "
[ذرا رکو پھر پڑھنا] 
" جوشاندہ پی لا نہیں تو سرپتیا چائے  لاوت ہوں اوکا پی لا": 
[جو شاندہ پی لو یا سرپت ایک خاص قسم کا سرپت اس کی چائے  بنا کر پی لو ]
 بابا اگر آدھا گھنٹہ بیٹھتے تو اسی دوران دو تین مرتبہ تلقین کرتے تھے بابا عموما مغرب بعد مجھ سے خوب بات کیا کرتے تھے وقت کے بڑے پابند تھے ۔ بسا اوقات مادر علمی  مدرسۃ الاصلاح کی بات کرتے تو ایسا لگتا جیسے بابا نے تاریخ پڑھی ہے ۔ جو بھی بیان کرتے درست کرتےحالاں کہ بابا بہت پڑھے لکھے نہیں تھے لیکن گفتگو سے اس کا اندازہ لگانا بہت مشکل تھا۔  ایک مرتبہ مجھ سے پوچھنے لگے 
"بابو ای جون اصلاح پہ قرآن پڑھاوا جاتھے کیسے پڑھاجاتھے کاہیں اور مولوبی مخالفت کرت ہن 
[ بابو یہ جو اصلاح پر قرآن پڑھایا جاتا ہے کس طرح پڑھایا جاتا ہے کیوں مولوی اس کی مخالفت کرتے ہیں ] 
میں نے بابا کو بتایا بابا یہاں امام فراہی ؒ کے بنائے  ہوئے  قرانی اصول پر قرآن پڑھایا جاتا ہے جہاں قرآن کو قرآن اور اس کے اندر موجود  نظم سے سمجھا جاتا ہے۔  اسرائیلی روایات کی بنیاد پر تفسیر نہیں کی جاتی ہے۔  بابا جب پوری طرح سمجھ نہ سکے تو مجھ سے کہنے لگتے  مثلا میں نے بابا کو ایک جواب حضرت سلیمان سے متعلق دیا جو مفسرین کی غلط فہمی پر مبنی تھا  اس کو واضح کیا اسی طرح ایک دو اور مثالیں دیں بابا جواب سن کر مطمئن  ہوگئے کہنے لگے قرآن اسی طرح پڑھانا چاہیے۔ بابا میرے گھر کے بچوں میں میرا بہت خیال رکھتے۔  بڑی قیمتی اور گُر کی باتیں بتاتے ۔  گاؤں کی تاریخ  گھنٹوں بتاتے رہتے۔  ہر موقع پر میری حوصلہ افزائی کرتے ۔ موسم کی تبدیلی پر بحث کرتے ۔ موسم کے لحاظ سے کب اور کیا کھایا جائے۔ اس کی بھی تعیین کرتے مثلا کہتے ٹھنڈک میں گرم چاول کھایا کرو چاول کی روٹی چھولی سے نکلتی رہے اور کھاتے رہو موسم گرما میں گڑ کا شربت پینے کی ہدایت دیتے ۔ جب لُو چلتی تو کہتے کام سویرے ختم کرلیا کرو دوپہر آرام کرنے کا وقت ہوتا ہے ۔ برسات میں کہتے بغیر ٹارچ کے مت چلا کرو ۔ مجھے ایسا لگتا تھا بابا کبھی ہم سے نہیں بچھڑیں گے لیکن ایک سال پہلے بابافجر کی نماز پڑھ کر گھر کی دہلیز پر پہنچے تھے کہ وہیں گر پڑے ہسپتال لے جائے گئے  لیکن آنکھیں بند کیں تو پھر نہ کھولیں ۔  بابا سے  پھر بات نہ ہو سکی ۔ وہ  آواز جو ہمیشہ میری بھلائی کے لئے ناصحانہ ہوتی تھی ہمیشہ کے لئے بند ہوگئی ۔ بابا آج بہت  یاد آئے آنکھیں بھر آئیں۔  بے ساختہ زبان سے نکل آیا ۔  آہ بابا اتنی جلدی ہمیں آپ چھوڑ کر کیوں چلے گئے ۔
___________
 [ جہاں کولہو سے گنے کا رس نکالا جاتا ہے اور دیہات کا خاص بیٹھک ]*


|| پہلا صفحہ || تعليم || سياست || جرائم؍حادثات || حق و انصاف || گائوں سماج || اچھي خبر || پرديس || ديني باتيں || کھيل || ادب || ديگر خبريں ||


HAUSLA.NET - 2024 ©