حوصله نيوز
حساب کا خوف (کہانی)


تحریر: اختر سلطان اصلاحی 
صبح واٹس ایپ کھولا تو دیکھا ہمارے دوست رومان صاحب کا ایک پیغام تھا:
"برادرم! السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
کیسے ہیں؟
آپ سے ایک بہت ضروری مشورہ کرنا ہے، جیسے ہی ممکن ہو تھوڑا سا وقت نکال کر تشریف لائیے. پلیز جلدی کیجیے گا.،،
پیغام پڑھنے کے ساتھ ہی ذہن میں طرح طرح کے خیالات آنے لگے.
آخر رومان صاحب مجھ سے کس سلسلے میں مشورہ چاہتے ہیں؟ ابھی تک تو انھوں نے کبھی کسی مسئلے میں مجھ سے کوئی  مشورہ نہیں مانگا تھا، ہاں بیس سال پہلے جب وہ ہمارے ساتھی تھے، ہم لوگ اسلامی جماعت کا کام مل کر کرتے تھے، اس زمانے میں اکثر وہ مجھ سے اور میں ان سے بہت سے مختلف  معاملات میں مشورے کیا کرتے تھے.
کاروبار کے سلسلے میں تو میں انھیں کوئی مشورہ دے نہیں سکتا تھا، ابھی کچھ دن  پہلے جب راغب صاحب کی شادی میں میری ان سے آخری بار ملاقات ہوئی تھی تو میں نے ان سے البتہ مشورہ چاہا تھا کہ کوئی ایسا کاروبار بتائیے جس میں لاگت کم آے اور وہ کاروبار جلدی چل جاے.
میرے اس سوال پر وہ بولے تھے:
"محمود صاحب! یہ کاروبار وغیرہ آپ کے بس کا روگ نہیں ہے، آپ کے لیے بہتر یہی ہے کہ آپ بچوں کو ٹیوشن وغیرہ پڑھاتے رہیے،،.
آج ان کا پیغام پڑھ کر میں حیران تھا، میں نے سوچا کہ ایک دو دن بعد کسی وقت موقع نکال کر رومان صاحب سے ملاقات کر لوں گا، مگر شام میں پھر ان کا فون آگیا، ان کی آواز سے ہی پریشانی جھلک رہی تھی، کہنے لگے:
"آپ نے شائد میرا میسیج دیکھا نہیں، میں پورے دن آپ کا منتظر رہا، براہ کرم تھوڑا سا وقت نکال کر تشریف لائیے.،،
میں نے پوچھا کہ اتنی جلدی کیا ہے، میں اطمئنان سے ملاقات کرتا ہوں تو کہنے لگے:
" محمود بھائی! ایک بہت اہم مسئلے میں آپ سے مشورہ کرنا ہے، میں پچھلے ایک ہفتے سے بہت پریشان ہوں، شائد آپ سے بات کرکے میری مشکل کچھ آسان ہو، آپ آج شام میں ہی آجائیے. ایسا کیجیے شام کا کھانا میرے ساتھ کھائیے، میں نو بجے ڈرائیور کو گاڑی لے کر بھیجتا ہوں..،،
میرے لیے یہ سب حیران کن تھا، پچھلے بیس سال میں رومان صاحب نے کبھی مجھے اس طرح نہیں بلایا تھا، ان کے اور میرے تعلقات اب بہت رسمی قسم کے رہ گئے تھے، بس مہینے دو مہینے بعد کسی شادی بیاہ یا کسی تقریب میں ہم لوگوں کی ملاقات ہوجاتی، حالانکہ ہم دونوں ایک ہی شہر میں تھے اور ہمارے گھروں کا فاصلہ صرف تین کیلو میٹر تھا.
رات ساڑھے آٹھ بجے ہی رومان صاحب کا ڈرائیور گاڑی لے کر آگیا تھا، چند منٹ میں ہی گاڑی رومان صاحب کے شاندار بنگلے میں داخل ہوئی. اس بنگلے میں میرا تین سال پہلے رومان صاحب کے بیٹے ارمان کی شادی میں آنا ہوا تھا.
رومان صاحب نے گھر کے دروازے پر ہی میرا استقبال کیا. وہ مجھے اپنے ساتھ کمرے میں لے گئے، چاے ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد انھوں نے کمرے کے دروازے اور کھڑکیاں بند کردیں اور بہت دازدارانہ انداز میں بولے:
"محمود بھائی آپ ضرور پریشان ہوں گے کہ میں نے آپ کو کس لیے بلایا ہے؟ عزیز دوست میں اس وقت ایک بڑی پریشانی سے دوچار ہوں، بہت غور وفکر کے بعد فیصلہ کیا کہ اس معاملے میں آپ کو رازدار بناوں، مجھے امید ہے کہ آپ میری مشکل دور کر سکیں گے،،
اتنا کہتے کہتے ان کی آواز بھرا گئی، انھوں نے رومال سے اپنے آنسو خشک کیے، میں نے انھیں تسلی دی اور پورا معاملہ بیان کرنے کے لیے کہا، رومان صاحب پھر گویا ہوے:
"محمود بھائی آپ کو تو معلوم ہے کہ میری پہلی زندگی کیسی تھی، ہم اور آپ دونوں ایک ساتھ جماعت میں کام کرتے تھے، ہمارے اندر کتنا دینی جڈبہ تھا، میں سماج کو تبدیل کرنے کے لیے بیتاب تھا،سماجی برائیوں کے خلاف کتنی کوششیں کرتا تھا، دن رات ہم لوگ کتنے ہی کام ایک ساتھ انجام دیتے تھے، زندگی اچھی بھلی گزر رہی تھی، میری کتاب کی چھوٹی سی دوکان تھی، ایک دن میرے پڑوسی دوکاندار کمال بھائی میرے پاس آے کہنے لگے:
"رومان! کتاب بیچ کر کیا کماو گے، ہمیشہ فقیروں کی طرح زندگی گزارو گے، میرا مشورہ مانو تو پٹھان پورہ میں دودھ کی دوکان کھول لو،میں شروع میں تمہاری پوری مدد کروں گا.،،
کمال بھائی مجھے کئی دن تک سمجھاتے رہے، آخر میں نے ان کی بات مان لی، پٹھان چوک کی دوکان کھلتے ہی جیسے میرا مقدر  جاگ گیا، دو تین سال میں ہی میرا کاروبار کافی آگے بڑھ گیا تھا, کاروبار بڑھا اور بڑھتا ہی چلا گیا، اب تو ماشاء اللہ شہر میں میری بیس دوکانیں ہیں، روز کا نفع ہی لاکھوں میں ہوتا ہے، ماشاء اللہ بیٹے، بھتیجے اور دو داماد ان دوکانوں کو اچھی طرح سنبھالے ہوے ہیں، اب تو میں دن بھر صرف گھوم گھام کر کاروبار کا جائزہ لیتا ہوں، شام میں سارا حساب کتاب میرے سامنے آجاتا ہے.
محمود بھائی  ایک زمانہ وہ بھی تھا جب میں بھی آپ کے ساتھ قرآن کا مطالعہ کرتا تھا، دروس قرآن و حدیث کی مجالس اٹینڈ کرتا تھا، دعوت کا کام کرتا تھا، خدمت خلق کے بہت سے کام کرتا تھا مگر کاروبار میں آنے کے بعد سب کچھ ختم ہوگیا، رہ رہ کے دل میں گھاٹے اور نقصان کا خیال آتا تھا مگر بھر دل کو یہ کہہ کر مطمئن کردیتا تھا کہ مالی اعتبار سے مستحکم ہوں گے تو پھر اللہ کے دین کا کام یکسو ہوکر کریں گے. مگر افسوس وہ دن کبھی نہ آیا، زیادہ سے زیادہ مال اور دولت کی طلب نے مجھے کہیں کا نہ چھوڑا، ہاے افسوس یہ سب میں نے کس لیے بنایا؟ کس کے لیے بنایا؟ یہ مال میرے کس کام آیا؟
رومان صاحب پھر رونے لگے تھے، میری سمجھ میں کچھ بھی نہیں آرہا تھا، آخر یہ کیفیت ان پر کیوں طاری ہورہی تھی. وہ رو رہے تھے اور بھبھک کر رورہے تھے. میری سمجھ میں کچھ نہ آیا، ان کی حالت دیکھ کر میرا دل بھی بھر آیا.
میں نے تقریباً رونی آواز میں کہا:
رومان صاحب آپ آپ اپنی  بات مکمل کیجیے، ابھی تک کو میں سمجھ نہیں سکا کہ مسئلہ کیا ہے، آپ پوری بات بتائیے.،،
رومان صاحب نے بڑی مشکل سے اپنے آپ پر قابو پایا اور بولے:
"محمود بھائی میں تو تباہ ہوگیا، کئی ماہ سے پیٹ میں کچھ تکلیف تھی، میں قبض اور گیس وغیرہ کی دوائیں کھاتا رہا، ادھر دو ہفتے سے رہ رہ کر بخار آنے لگا تھا، ڈاکٹر پردھان نے سونو گرافی کا مشورہ دیا، ایک ہفتہ پہلے رپورٹ آئی، پیارے دوست اب میں تم سے کیا کہوں؟
پیٹ میں کینسر ہے وہ بھی تیسرے اسٹیج میں، ہاے میری دنیا اجڑ گئی، ڈاکٹر نے کہا اس کا کوئی علاج نہیں ہے، گھر پر رہیے، دوائیں کھائیے، مہینہ دو مہینہ جتنی بھی زندگی باقی ہے  اسے گزار لیجیے.آپریشن کرنے پر فورا جان چلی جان کا خوف ہے. 
پیارے دوست! جس دن سے مجھے اس موذی بیماری کی خبر ملی ہے کیا بتاؤں کیسا حال ہے، تین دن تو ایک منٹ بھی نیند نہ آئی، بھوک پیاس سب غائب، بے چینی کے ساتھ ہر وقت ٹہلتا رہتا تھا، دو تین روز سے نیند کا انجیکشن لگتا ہے تب کہیں جا کر نیند آتی ہے. مجھے اپنی موت سامنے نظر آرہی ہے، موت تو آنی ہی تھی مگر اتنی جلدی یہ تو میرے تصور میں بھی نہ تھا، میں اکثر سوچتا رہتا تھا کہ بڑھاپے میں خوب اچھے اچھے کام کر کے آخرت کا سامان کر لوں گا، تمام گناہوں سے توبہ کر کے اللہ کو راضی کر لوں گا، مگر افسوس یہ کیا ہوا، ہاے رے میری بدنصیبی،، .
رومان صاحب پر غشی طاری ہوچکی تھی، میں نے ان کے بڑے بیٹے کو بلایا، گھر میں شائد صرف اسی کو رومان صاحب کی بیماری کا علم تھا، وہ بہت پریشان تھا، اس نے رومان صاحب کو کوئی دوا پلائی، کچھ دیر بعد انھیں آرام ہوا، کہنے لگے:
"لالچ بہت بری چیز ہے، میں نے جب دودھ کا کاروبار شروع کیا تو دھیرے دھیرے مجھ پر زیادہ منافع کمانے اور دولت مند بننے کا بھوت سوار ہوا، میں نے نقلی دودھ بنانا شروع کیا، اس سے لاکھوں کماے، اللہ معاف کرے نہ جانے کتنے معصوم بچے اور بوڑھے میرے نقلی دودھ سے بیمار ہوے اور مر گئے، میں اللہ کو کیا منہ دکھاوں گا؟
کاروبار بڑھا تو کاروباری دشمن بھی سامنے آے، میں نے دشمنوں کو نیچا دکھانے کے لیے ہر ہتھکنڈا اختیار کیا، پولیس کو رشوت دی، غنڈوں کا سہارا لیا، کتنے لوگوں کا حق میں نے غصب کیا، اب میں کیا کروں؟ اللہ کو کیا جواب دوں گا؟
میں نے نہ تو رشتے داروں کا حق کیا، نہ ہی اپنے مال کی صحیح طور سے زکوۃ نکالی، نہ تو مال اچھے کاموں میں خرچ کیا اور اچھے کام میں خرچ کیسے کرتا جب حلال طریقے سے کمایا ہی نہیں، ہاے رے میری قسمت، میں تو برباد ہوگیا.،، 
میں رومان صاحب کو دیر تک سمجھاتا رہا، مگر انھیں کسی کل چین نہ تھا، موت ان کے سامنے کھڑی تھی، حساب کتاب کا خوف ان کے سر پر سوار تھا، وہ بہت زیادہ بے چین تھے، کہنے لگے:
" محمود بھائی مجھے مشورہ دیجیے اب میں کیا کروں، آل اولاد کے لیے تو میں نے دنیا کو جنت بنایا مگر اپنی آخرت برباد کر لی، اب گنتی کے چند دن باقی رہ گئے ہیں، آخر اب میں کیا کروں؟ اللہ کی پکڑ سے کیسے بچوں،،؟ 
میں دیر تک انھیں تسلی دیتا رہا، سمجھاتا رہا مگر ان پر کوئی اثر نہیں ہورہا تھا ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جہنم ان کے سامنے منہ کھولے کھڑی ہے. 
کئی گھنٹے کے بعد میں گھر واپس آیا، میں وقفے وقفے سے ان کی عیادت کے لیے جاتا رہا، ان کی حالت دن بہ دن خراب ہوتی جا رہی تھی ایک دن میں گیا تو ان کے بیٹے نے بتایا:
" ابا کی طبیعت کل شام سے زیادہ خراب ہے،اس وقت وہ بیہوش ہیں، ابا نے دو روز پہلے  اپنا پورا بینک بیلنس جو دو کروڑ کے آس پاس تھا شہر کے یتیم خانے کو دے دیا ہے، پٹھان پورہ میں دس ہزار گز کا ایک قیمتی پلاٹ مسجد کے لیے وقف کردیا ہے، پھوپھیوں کو بلا کر ان کا حصہ بھی ان کے حوالے کردیا، کل وہ تھوڑا مطمئن تھے، ہم سب بھائیوں کو کل اپنے سامنے بیٹھا کر نیکی اور دیانت داری کی تاکید کی ہے، چچا ان کے لیے دعا کیجیے.،، 
آج میں رومان صاحب کے جنازے میں شریک تھا، بار بار خیال آتا تھا کہ دنیا کس قدر عارضی ہے، کتنی مختصر ہے،دھوکے کا سامان ہے، آدمی اس دنیا کے چکر میں اپنے اصل گھر آخرت کو بھول جاتا ہے،جب موت اسے نظر آتی ہے تو وہ پچھتاوے میں مبتلا ہوتا اور ہاتھ ملتا ہے. رومان صاحب کو تو تھوڑا سا موقع مل گیا. آخری وقت میں انھیں حساب کتاب کا خیال آیا، انھوں نے اپنی آخرت بنانے کی کوشش کی، خداے تعالی انھیں معاف کرے۔آمین۔


|| پہلا صفحہ || تعليم || سياست || جرائم؍حادثات || حق و انصاف || گائوں سماج || اچھي خبر || پرديس || ديني باتيں || کھيل || ادب || ديگر خبريں ||


HAUSLA.NET - 2024 ©