حوصله نيوز
چشم و چراغ عالم اعظم گڑھ- قسط ہفتم


تحریر: حقانی القاسمی
عزم سہر یاوی
اعظم گڑھ کی زمین شہر سخن کا ایک اہم نام ابوالفیض عزم سہریاوی کا بھی ہے جن کے اشعار ندرت فکر اور جدت اظہار کی گواہی دیتے ہیں اور جنہوں نے خود کو مخصوص موضوعات میں مرتکز نہیں کیا ہے۔ان کے طائر خیال کی پرواز بھی بلند ہے اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنے سخن کو آسماں کیا ہے اور شبد ستاروں سے ایک خوبصورت کہکشاں سجائی ہے۔
ان کی فکر کا ئنات سے رشتہ جوڑتے ہوئے ذہن پر بہت سی حقیقتیں منکشف ہوتی ہیں بالخصوص وہ حقائق جو ذہن رسا سے ہی معرض وجود میں آتے ہیں۔ عزم سہریاوی نے حیات اور کائنات کے اسرار کو اظہار کا پیکر عطا کیاہے۔ ان کے یہاں زندگی اپنی مختلف شکلوں میں رونما ہوتی ہے۔ان کے چند اشعار سے ان کے فکری کینوس کو بآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔
کبھی مندر میں پروہت،کبھی گرودوارے میں سنت
ہم نے دیکھا ہے اسے روزاک ہر مٹ کی طرح
اس پہ اے عزم بھروسہ بھی کریں تو کیسے
رنگ ہر روز بدلتا ہے جو گرگٹ کی طرح
.......
دیے جلاؤ ذرا روشنی تو ہونے دو
کبھی یہ ختم غم زندگی تو ہونے دو
اب ایک ساتھ ہی مل جل کے بیٹھ لیں ہم تم
اس انجمن میں ذرا دل لگی تو ہونے دو
.......
یہ بستی ہے نئے لوگوں کی شاید
یہاں پہچانتا کوئی نہیں ہے
مری باتوں کے قائل تو سبھی ہیں
مگر اب مانتا کوئی نہیں ہے
.......
وہ سنپولے ہیں زہر میں ڈوبے
موقع ملتے ہی کاٹ لیتے ہیں
ہم میں ایسے بھی لوگ ہیں کتنے
غم جو اوروں کے بانٹ لیتے ہیں
.......
یہ معاشرے کے وہ مشاہدے ہیں جو شاعری میں ڈھل گئے ہیں۔ایسے ہی مشاہدوں سے تخلیق میں تنوع پیدا ہوتا ہے اور تازگی آتی ہے۔عزم کے یہاں موضوعی سطح پر ایسا ہی تنوع نظر آتا ہے۔ان کی شاعری میں طنز کی زیریں لہر ملتی ہے۔خاص طور پر عصری واردات اور وقوعات کے حوالے سے ان کے یہاں ایسے اشعار ملتے ہیں۔ان اشعار میں ان کے طنز کے نشتر کو ہر حساس دل محسوس کر سکتا ہے۔
دین و ملت خاک سب نام و نسب
فہم سے کچھ کام لے اے بے ادب
ہے کسی شئے کو ثبات دائمی؟
کام لے گا عقل سے تو اور کب
ہو گئے اطفال نو سارے کے سارے بے ادب
مسئلہ علم و ادب کا ملت بیضا ہے اب
دین و مذہب کچھ نہیں نام و نسب سے فائدہ
منفعل ہے آسمان دل زمیں ہے مضطرب
عزم سہریاوی نے لسانی سطح پر بھی کچھ الگ تجربے کئے ہیں جو دوہے کی شکل میں سامنے آئے ہیں،یہ دوہے ان کی فکری جزالت اور لسانی لطافت کا خوبصورت نمونہ ہیں۔
ہے مورکھ نادان تو سوکھے پیڑ سمان
پات،پشپ جس پر نہیں پھل سے بھی اگیان
پشپ بھانت ادھروں پر سائیں سجی رہے مسکان
مانو شریسٹھ یہی ہے جس کا جیون دیپ سمان
جدید معاشرے کی نفسیات اور تہذیبی تبدیلی سے آگاہ عزم سہریاوی معاشرے کے انتشار اور انارکی سے متفکر ہیں اسی لئے وہ معاشرے میں صالح قدروں کی بات کرتے ہیں اور ہر اس نظر اور نظریے کو مسترد کرتے ہیں جس سے معاشرے کی ساخت مجروح ہوتی ہے۔فسادات،نفرتیں ،دوریاں جس سے معاشرتی اکائی متاثر ہوتی ہے ان کے خلاف ،ان کی شاعری شمشیر برہنہ ہو جاتی ہے۔چند اشعار سے ان کی فکر مندی کے آثار نمایاں ہیں۔
کوبہ کو سارے نگر میں مفلسی کا راج ہے
روز و شب کیسے غریبوں کے بسر ہوتے رہے
تھے سبھی مرعوب دہشت گردوں کے شہر میں
ہر طرف ظلم و تشدد سر بہ سر ہوتے رہے
رقص میں تھیں اپسرائیں لوگ تھے نوحہ کناں
حاکم جابر کے سب زیر اثر ہوتے رہے
قصر میں اغیار کے تھا رقص کا عالم ہنوز
اور سارے شہر میں دنگے ادھر ہوتے رہے
عزم سہریاوی کہنہ مشق شاعر ہیں اور ان کی شعری حسیت کی تشکیل میں اس مردم خیز خطے کا عمل دخل ہے جہاں سے جانے کتنے آفتاب و مہتاب نے جنم لیا،علامہ شبلی،علامہ فراہی اور علامہ اقبال سہیل کی سر زمیں اعظم گڑھ سے تعلق رکھنے والے عزم سہریاوی کا یہ دوسرا مجموعہ ہے۔ اس سے قبل' سحاب رحمت 'کے نام سے حمد و نعت کا مجموعہ مقبول ہو چکا ہے۔'طلوع سحر'ان کی غزلیات کا مجموعہ ہے،جس میں وہ اپنے غزلیہ آہنگ میں مختلف اور معتبر انداز میں سامنے آتے ہیں۔انہوں نے اپنے مجموعے کے حوالے سے جو کہا ہے اس میں شاید کچھ لوگوں کو تعلی نظر آئے،مگر ان کی شاعری کی سطریں ان کی صداقت کا ثبوت پیش ہیں۔وہ اشعار یہ ہیں:
ملیں گے اور بھی مجموعۂ سخن لیکن
کوئی بھی ان میں 'طلوع سحر' نہیں ہوگا
تمام لفظ و معانی ہیں جس کے لعل و گہر
کہ لفظ لفظ کوئی بے اثر نہیں ہوگا
فکری اعتبار سے یہ اردو شاعری کی نئی سحر ہے کہ ہماری شاعری بہت دنوں تک رات کی قید میں رہی ہے۔


|| پہلا صفحہ || تعليم || سياست || جرائم؍حادثات || حق و انصاف || گائوں سماج || اچھي خبر || پرديس || ديني باتيں || کھيل || ادب || ديگر خبريں ||


HAUSLA.NET - 2024 ©