حوصله نيوز
مئو-شاہ گنج ریلوے لائن اور سرائے میر اسٹیشن کی کہانی 


تحریر: ابوالفیض اعظمی
سرائے میر ریلوے اسٹیشن پر پلیٹ فارم نمبرایک کی تعمیر کے دوران کھدائی میں 1901 کی چند اینٹیں ملی ہیں. لوگ اپنے اپنے اندازے کے مطابق اسٹیشن اور ریلوے لائن کی عمر کا اندازہ لگارہے ہیں۔ گرچہ سرائے میر گاڑیوں کے ٹھہراؤ کے لحاظ سے اتنا اہم نہیں ہے لیکن آبادی  اور جغرافیائی طور پر انتہائی اہم ہے۔ 
مئو- شاہ گنج ریلوے لائن کا شمار پہلےچھوٹی لائن کے طور پر ہوتا تھا جہاں کم دوری کی پیسنجر ٹرینیں چلتی تھیں۔ "مختصر جغرافیہ ضلع اعظم گڑھ" نامی کتاب کے  مطابق سال 1993 میں اس وقت کے  وزیر ریلوے سی کے جعفر شریف  کے ذریعہ بڑی لائن کی بنیاد رکھی گئی اور1997 سے ایکسپریس گاڑیوں کی آمد شروع ہوئی۔ شروعاتی دور میں سرائے میر اسٹیشن پر سابرمتی اور سریو جمنا ایکسپریس کا ٹھہراؤ ہوا اس کے بعد اتسرگ ایکسپریس رکنا شروع ہوئی۔ ممبئی سے گورکھپور کے لئے گودان    ایکسپریس کی شروعات سال 2002میں ہفتہ وار ٹرین کے طور پر ہوئی لیکن سرائے میر میں اس کا ٹھہراؤ تقریباً 4 سال بعد ہی ممکن ہوسکا۔ اسی طرح کیفیات ا یکسپریس 2003 سے چل رہی ہے لیکن سرائے میر میں جنوری 2019 سے اس کے ٹھہراؤ کو یقینی بنایا گیا۔
 اس کے علاوہ مئو -آنند ویہار، تاپتی گنگا، اور غریب نواز ایکسپریس کے سرائے میر ریلوے اسٹیشن پر ٹھہراؤ کی مانگ کی جارہی ہے لیکن ابھی تک حکومت کی طرف سے اسے منظوری نہیں ملی ہے۔
جب تک چھوٹی لائن تھی دن بھر میں دو-تین لوکل ٹرینیں آتی جاتی تھیں کبھی کبھی مال گاڑی کا بھی گزر ہوجایا کرتا تھا۔
"مختصر جغرافیہ ضلع اعظم گڑھ" نامی کتاب کے مصنف مولانا عتیق الرحمن اصلاحی کہتے ہیں کہ مئو-شاہ گنج ریلوے روٹ پر پٹری بچھانے کا آغاز کب ہوا اور کتنے سال میں یہ کام مکمل ہوایہ نہیں معلوم، البتہ بعض راویوں کے مطابق پٹری بچھانے کے بعد ٹرائل 1899میں اور بعض کے بقول 1901میں شروع ہوا۔  
مولانا مزید کہتے ہیں کہ جب یہ چھوٹی لائن تھی اس وقت لوکل ٹرینوں کے علاوہ مال گاڑیاں بھی کوئلے کے انجن سے چلتی تھیں اور ان میں صرف 6 ،7 ڈبے ہی ہوتے تھے. پسنجر گاڑیاں مئو سےآگے بلیا تک  جاتی تھیں۔  
سرائے میر کے اسٹیشن ماسٹر رام شرن یادو نے اس کے تاریخی پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے حوصلہ نیوز کو بتایا کہ "1901 کے آس پاس سرائے میر ریلوے اسٹیشن تعمیر ہوا تھا. اس وقت تمام ریلوے اسٹیشن اپنا تعمیراتی سامان خود سے تیار کرتے تھے. اس وقت بنگال اینڈ نارتھ ویسٹرن ریلوے کا حصہ تھا جس کی بنیاد 23 اکتوبر 1882 کو ایک ذاتی کمپنی کے طور پر رکھی گئی تھی"۔
مدرستہ الاصلاح سرائے میر کے سابق استاد اور صدر جمہوریہ ایوارڈ یافتہ مولانا بدر جمال اصلاحی نے بتایا کہ ان سے قاضی اطہر مبارک پوری نے مئو- شاہ گنج ریلوے لائن بچھائے جانے کے وقت کا واقعہ کچھ یوں بیان کیا ہے "جب 1901 میں انگریز ی حکومت مئو -شاہ گنج ریلوے لائن بچھارہی تھی اس وقت ملک میں قحط پڑا ہوا تھا. علاقے کے اطراف میں دور دور تک گھنے جنگلات کی کثرت اور آبادی کے نہ ہونے کی وجہ سے ٹائیگروں کا دبدبہ تھا وہ اکثر انسانوں پر حملہ کرتے. قحط اور غربت کی وجہ سے پردہ نشیں خواتین بھی ریلوے لائن کے بچھانے میں مٹی اور پتھر اپنے سروں پر  ڈھوتیں اور دوسرے کام بھی کرتی تھیں. عورتوں کی حفاظت کے لیے خاص دستے لگائے گئے تھے. مزدوروں کو ٹائیگروں سے بچانے کے لیے بندوق بردار دستوں سے بھی تعاون لیا گیا تھا. اگر آس پاس کہیں کوئی ٹائیگر دکھائی دیتا تو وہ فوراً گولی مار دیتے تھے"۔
مولانا مزید کہتے ہیں کہ قاضی صاحب نے یہ بھی بتایا کہ" جو عورتیں مزدوری کرنے آتیں ان کی چادر یا برقعے ایک محفوظ جگہ نام لکھ کر رکھ دئیے جاتے، جب وہ مزدوری کر کے واپس اپنے گھروں کو لوٹتیں تو ان کے سامان حفاظت کے ساتھ انہیں لوٹا دیے جاتے تھے. مزدوری گھنٹے کے اعتبار سے ادا کی جاتی تھی"۔
" ٹرین میں تو عورتوں کے لیے الگ سے کیبن ہوتا تھا جس میں مرد کے بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی. ڈبے پر انگریزی میں لیڈیز اور اردو میں زنانہ لکھا ہوتا تھا. ٹائیگروں اور دوسرے درندوں سے بچنے کے لیے کھڑکیوں اور دروازوں کو موباطی سے بند کر دیا جاتا تھا. جنگلی بھینسے تو اکثر چلتی ٹرین سے ٹکر مارتے تھے. بندوقچی دستوں کوجگہ جگہ تعینات کیا گیا تھا کہ وہ کسی جنگلی جانور کو ٹرین کے قریب نہ آنے دیں۔ انہیں گولی مار دیں یا ڈرا دھمکا کر بھگادیں۔
ریلوے لائن بچھانے کے فوراً بعد اسٹیشنوں پر سایہ کے لیے پاکڑ کے بڑے بڑے درخت لگائے گئے. اسٹیشنوں کے سامنے دور تک شیشم اور آم کے درخت لگائے گئے ۔اسٹیشنوں پر پھول لگانے کے لئے کیاریاں بنائی گئیں۔
بڑے لوگوں اور شریفوں نے ریل گاڑی کو یکہ اور چھگڑ بنارکھا تھا. پہلے آپ۔۔۔، پہلے آپ۔۔ میں اکثر گاڑی چھوٹ جاتی تھی. اس وقت گاڑی کا آنا اور چھوٹنا متعینہ وقت پر ہوتا تھا. لوگ اسی حساب سے اپنی گھڑی کا وقت درست کرتے تھے"۔
سرائے میر ریلوے اسٹیشن پر پلیٹ فارم نمبر ایک کو اونچا کرنے کا کام چل رہا لیکن پلیٹ فارم نمبر دو نیچا ہونے کی وجہ سے عوام کی پریشانیاں ابھی وہیں کی وہیں ہے. زیادہ تر دونوں پلیٹ فارم پر ایک ہی وقت میں ٹرینیں آتی ہیں اس وجہ سے پلیٹ فارم نمبر دو کے مسافروں کے کو ٹرین میں سوار ہوتے وقت بہت دقت ہوتی ہے. برزگ مسافروں، خواتین اور بچوں کے سوار ہونے کے وقت مزید پریشانی بڑھ جاتی ہے۔
پلیٹ فارم نمبر دو کے اونچا نہ ہونے سے پریشانی ہوتی ہے ساتھ ہی فٹ اوور برج نہ ہونے کی وجہ سے بھی مسافروں کو دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے. اور انہیں پلیٹ فارم نمبر ایک سے دو کی طرف یا دو سے ایک طرف آنے میں پریشانی ہوتی ہے۔
ریلوے سنگھرش سمیتی سے وابستہ ابو منظر نے حوصلہ نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "سمیتی کی طرف سے فٹ اوور برج اور پلیٹ فارم نمبر دو کو بھی اونچا کرنے کی کئی درخواست ریلوے انتظامیہ کو دی جاچکی ہے. اسے بنانے کی منظوری بھی آچکی ہے لیکن کب تک بن کر تیار ہوگا کچھ کہا نہیں جاسکتا ہے"۔
اس کے علاوہ پلیٹ فارم پر پانی، اچھی کینٹین اور صاف صفائی جیسی چیزوں کا فقدان ہے. ریلوے اسٹیشن کے آس پاس گندگی کا ڈھیر لگا رہتا ہے جس کی بدبوسے مسافروں کو پریشانی اٹھانی پڑتی ہے۔
یہ بات پہلے ہی سے کہی جارہی ہے کہ سرائے میر ریلوے اسٹیشن جغرافیائی اعتبار سے ایکسپریس گاڑیوں کے لیے بہت اہم اس لیے کہ یہ اسٹیشن اعظم گڑھ اور شاہ گنج کے درمیان دوری کے لحاظ سے برابر ہے. یہاں سے لوگوں کے لیے آمد ورفت میں زیادہ آسانی ہوتی ہے. اسی طرح مدرسۃ الاصلاح، بیت العلوم ،فیض العلوم اور ابن سینا طبیہ کالج واسپتال بیناپارہ میں تعلیم حاصل کرنے والے دوسرے صوبوں کے طلبہ و طالبات کے لیے یہاں سے آنے جانے میں زیادہ سہولت ہوتی ہے۔
واضح رہے کہ کہ حکومت کی طرف سے پھیپھنا شاہ گنج ریلوے لائن کو ڈبل کرنے کے علاوہ ایلیٹرسٹی لائن کی بھی حکومت ہند سے منظوری مل گئی ہے جس پر کام چل رہا ہے. ساتھ میں اسی دوران سٹھیاوں، رانی کی سرائے، سرائے میر اور دیدار گنج ریلوے اسٹیشن پر فٹ وئیر برج  بنائے جانے کی بات بھی خبروں میں گردش کررہی ہے۔


|| پہلا صفحہ || تعليم || سياست || جرائم؍حادثات || حق و انصاف || گائوں سماج || اچھي خبر || پرديس || ديني باتيں || کھيل || ادب || ديگر خبريں ||


HAUSLA.NET - 2024 ©