حوصله نيوز
تعلیم سے زیادہ تربیت کی ضرورت ہے


مولانا محمد طاہر مدنی
تربیت وہ تدبیر ہے جس کے ذریعے انسان گری ہوتی ہے. ایسی تعلیم جس میں تربیت شامل نہ ہو، بے سود ہے. ہر نظام تعلیم ایک مخصوص انداز کی تربیت بھی کرتا ہے اور مخصوص انداز کے افراد تیار کرتا ہے. بے رنگ تعلیم ناقابل تصور ہے. آج مغربی نظام تعلیم کا چلن ہے، اس کے ذریعے ایسے افراد تیار ہوتے ہیں جو مغربی طرز فکر، مغربی تہذیب اور مغربی اقدار کے حامل ہوتے ہیں. مغرب کے خمیر میں لادینیت، لبرزم، الحاد، آخرت فراموشی، حب دنیا اور عریانیت شامل ہے. یہ نظام تعلیم ایسے افراد تیار کر رہا ہے جو ان اقدار پر عمل پیرا اور ان کے علمبردار ہیں.
اسلام کے خمیر میں خدا پرستی، آخرت پسندی، حیا، انسانیت نوازی اور جذبہ خدمت شامل ہے. اسلامی نظام تعلیم کا مقصد اللہ کا صالح بندہ بنانا ہے. یہاں تعلیم کا آغاز اللہ کے نام سے ہوتا ہے. صرف اقرأ کا حکم نہیں ہے بلکہ اقرا باسم ربك الذي خلق، پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا. وہ تعلیم جو اپنے رب سے بندے کو جوڑ نہ سکے، وہ روشنی نہیں اندھیرا ہے. اسلامی نظام تعلیم میں جامعیت، دین و دنیا کا امتزاج اور توازن ہے. یہاں ایسے انسان مطلوب ہیں جو حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کو بخوبی ادا کریں. یہ نظام تعلیم سے کہیں زیادہ تربیت پر زور دیتا ہے. ماں کی گود اور گھر سے ہی تربیت شروع ہوجاتی ہے. اللہ سے محبت بچپن ہی سے بچوں کے دلوں میں پیدا کی جاتی ہے. محبت رسول کی شمعیں اس کے خانہ دل میں روشن کی جاتی ہیں. اسلامی آداب سکھائے جاتے ہیں. اخلاق حسنہ سے آراستہ کیا جاتا ہے اور آگے چل کر انہی بنیادوں پر مکتب، مدرسہ، اسکول، کالج اور یونیورسٹی شخصیت کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں.
مسلمانوں کے زیر انتظام جو تعلیمی ادارے ہیں ان کے ذمہ داروں کا یہ فرض منصبی ہے کہ زیر تعلیم طلبہ و طالبات کی تربیت پر پوری توجہ دیں. مکاتب، مدارس، اسکول، کالج اور دیگر تعلیمی ادارے، دراصل تربیت کے مراکز ہیں، جہاں مستقبل کے معمار تیار ہو رہے ہیں. یہ اگر مہذب ہوں گے، باادب ہوں گے، اخلاق حسنہ کا پیکر ہوں گے تو ملت کا مستقبل روشن اور تابناک ہوگا.
یاد رکھیں کہ تربیت کی بنیاد اسلامی عقائد اور ایمانیات ہے. ایمان باللہ، ایمان بالآخرة، ایمان بالرسول، ایمان بالکتاب، ایمان بالملائکہ اور ایمان بالقدر کو دل و دماغ میں پیوست کر دینا ہے. اللہ اور رسول سے محبت اور فکر آخرت پیدا کرنی ہے. نماز کی پابندی اور قرآن مجید سے شغف پیدا کرنا ہے. اچھے اخلاق کی عادت ڈالنا ہے اور برے اخلاق سے محفوظ رکھنا ہے. اللہ کی نگرانی اور آخرت کی باز پرس کا ایسا یقین اور استحضار پیدا کرنا ہے کہ تنہائی میں بھی بندہ گناہ سے بچ سکے. یہ ایک طویل اور صبر آزما کام ہے، اس کے لیے فکرمندی اور توفیق الہی ضروری ہے. گھر، محلہ اور اسکول کے باہمی تعاون کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے.
گھر کا ماحول دینداری کا ہونا چاہیے، پانچ سال تک بچے بہت کچھ سیکھ لیتے ہیں. محلہ کے دوستوں کی صحبت کا اثر پڑتا ہے. اس لیے اصلاح معاشرہ کا کام بہت ضروری ہے. مدرسہ اور اسکول شخصیت کی تعمیر میں اہم رول ادا کرتے ہیں، اس لیے تعلیم گاہ کا ماحول بہتر بنانا لازمی ہے. اکبر الہ آبادی نے تعلیم گاہ کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے کہا تھا؛
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کی فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
اگر مدرسوں سے اچھی تربیت نہ مل سکے، مسلم مینجمنٹ کے تعلیمی عصری اداروں سے بااخلاق نسل تیار نہ ہوسکے تو ان کو بند کر دینا چاہیے. ہمیں تعلیم گاہ اور تربیتی مرکز کی ضرورت ہے، قتل گاہ کی ضرورت نہیں ہے. لوگ کہتے ہیں کہ قوم کی ترقی کی کنجی تعلیم ہے، میں کہتا ہوں، تربیت قومی ترقی کے لیے شاہ کلید اور بنیادی شرط ہے. تربیت اول ہے، تربیت آخر ہے، تربیت ابتداء ہے تربیت انتہا ہے، تربیت راہ ہے، تربیت منزل ہے، تعلیم کی کمی تربیت سے پوری ہوسکتی ہے مگر تربیت کی کمی تعلیم سے پوری نہیں ہوسکتی. اسی لیے قرآن مجید میں فرائض رسالت کا مقصود، تربیت اور تزکیہ ہی بتایا گیا ہے. کامیابی کی ضمانت اسی کو دی گئی ہے جو اپنا تزکیہ کرے؛ قد أفلح من تزكي؛ کامیاب ہوا وہ جس نے اپنا تزکیہ کیا. یہی تربیت و تزکیہ کا عمل ہے جو مس خام کو کندن بناتا ہے.
مکاتب کے ذمہ داروں، مدارس کے نظماء، اسکولوں کے پرنسپل اور کالجوں کے مینیجر حضرات سے درد مندانہ اپیل ہے کہ اپنی نازک ذمہ داری کو سمجھیں، بچوں کی تربیت کی فکر کریں اور اپنے تعلیمی اداروں کو تربیت گاہوں میں تبدیل کریں. یاد رکھیں، یہ بچے صدقہ جاریہ بھی بن سکتے ہیں اور گناہ جاریہ بھی........ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو. آمین


|| پہلا صفحہ || تعليم || سياست || جرائم؍حادثات || حق و انصاف || گائوں سماج || اچھي خبر || پرديس || ديني باتيں || کھيل || ادب || ديگر خبريں ||


HAUSLA.NET - 2024 ©