حوصله نيوز
ملک کی موجودہ صورتِ حال اور ذمہ دارانِ مدارس کا رویہ



                           ڈاکٹر محمد اسامہ
شعبہ اسلامک اسٹڈیز،جامعہ ملیہ اسلامیہ،نئی دہلی
ملک کی موجودہ صورت حال سے ہم سب بہ خوبی واقف ہیں۔ Covid-19 نے پوری دنیا کی سماجی،سیاسی،معاشی اور تعلیمی سرگرمیوں کو معطل کردیا ہے۔ یہ سلسلہ کب تک چلے گا؟اس پر ابھی اظہار خیال کرنا قبل از وقت ہوگا۔ اس عالمی وبا سے یقینا ہندوستان بھی متاثر ہوا ہے اور اب حالات یہ ہیں کہ کرونا وائرس سے متاثرین کی تعداد بیالیس (42) لاکھ سے زائد تجاوز کر چکی ہے،اس سلسلے میں ہردن سیکڑوں مریضوں کی شناخت ہو رہی ہے۔ ایسی صورت حال میں یونیورسٹیوں، کالجوں، اسکولوں اور مدارسوں کے لیے تعلیمی سرگرمیوں کو برقرار رکھنا نہایت ہی مشکل عمل ثابت ہو رہا ہے،نیزطلبہ و طالبات کا داخلہ،تجدیدِ داخلہ،آن لائن درس و تدریس، امتحات اور ان سب کو مناسب طریقے سے نظم وضبط کے ساتھ چلانا ذمے داران کے لیے واقعی ایک چیلنج بن چکا ہے۔
موجودہ تعلیمی مسائل:
تعلیم کے میدان میں اس وقت جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہے وہ تعلیمی سرگرمیوں کو کام یابی کے ساتھ آن لائن (Online) پیش کرنا ہے،چاہے اس کا تعلق داخلہ اور تجدید داخلہ سے ہو یا آن لائن کلاسزسے،کیوں کہ آج بھی ہندوستان میں بہت سی ایسی جگہیں ہیں جہاں پر عوام کو انٹرنیٹ کی سہولت میسر نہیں ہے،اگر ہے بھی تو اس کی رفتاراتنی نہیں کہ آسانی کے ساتھ سارا کام ممکن ہو سکے،نیز بہت سے طلبہ وطالبات ایسے ہیں جن کے پاس ملٹی میڈیا موبائل ،کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ نہیں ہیں۔ ایک گھر میں اگر تین یا چار بچے ہیں تو ظاہر ہے کہ بہت سے والدین کے لیے انہیں موبائل دلانا ممکن نہیں ہوگا،بالخصوص ایک ایسے وقت میں جب لوگوں کے پاس کھانے اور رہنے کے لیے پیسوں کا انتظام کرنا مشکل سے مشکل ترین عمل ثابت ہو رہا ہے۔ ایسے حالات میں وہ کیسے اور کس طرح اپنے بچوں کو موبائل، لیپ ٹاپ اور انٹر نیٹ کی سہولیات میسر کرا پائیں گے؟یہ سوچنے اور سمجھنے والی بات ہے۔اس دوران کرناٹک سمیت کئی جگہوں پر ایسے واقعات سننے کو ملے ہیں کہ کسی طالب علم یاطالبہ نے موبائل نہ ملنے کی وجہ سے خود کشی کر لی۔ یہ صورت حال حکومت ہند اور اس کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ 
طلبہ و طالبات متعلقہ تعلیمی اداروں میں بذات خود نہیں آسکتے،کیوں کہ اس وقت سفر کرناانتہائی مشکل ہے۔بہت سی ریاستوں میں بعض شرائط کے ساتھ لاک ڈاون ہے،مختلف طرح کی پابندیاں ہیں،پولیس کا رویہ بھی ا س سلسلے میں کیا ہے؟اس سے ہم سب بخوبی واقف ہیں۔راقم الحروف نے اس صورت حال پر تفصیلی گفتگو اس لیے کی ہے کہ تعلیمی اداروں،بالخصوص اہل مدارس کے ذمہ داروں کے ذہنوں میں درج بالا مسائل تازہ ہو جائیں اور ان کو مسائل کی نوعیت اور حساسیت کا صحیح ادارک ہو جائے کہ صورت حال عام دنوں کی طرح نہیں ہے اور جب حالات آج پہلے سے مختلف ہیں تو اصول و ضوابط اور قواعد وغیرہ میں بھی اتنی ہی نرمی،سہولت اور رخصت ہونی چاہیے جو اس وقت بالعموم ناپید نظر آرہی ہے۔اس پہلوپر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔
 مدارس کے ذمہ داروں کا رویہ:
کرونا وائرس سے جہاں ایک طرف یونی ورسٹیاں،کالجز اور اسکولز وغیرہ متاثر ہوی ہیں ،وہیں دوسری طرف مدارس کو بھی اس کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ دونوں ہی طرح کے اداروں نے حتی الامکان وقت اور حالات کے تقاضوں کے مطابق اپنی اپنی تعلیمی سرگرمیوں میں تبدیلیاں کی ہیں۔راقم السطور نے اس کے تحت مدارس کی موجودہ تعلیمی سرگرمیوں کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے،کیوں اس کا تعلق دونوں اداروں سے رہا ہے۔بہت ممکن ہے کہ کسی کو ان باتوں سے اختلاف ہو تو یہ اس کا بنیادی حق ہے،وہ دلائل کی روشنی میں اپنی بات پیش کرسکتا ہے۔ بہرحال یہ بہت ہی خوشی اور اطمینان کی بات ہے کہ عصری اداروں کی طرح اہل مدارس نے بھی عالمی وبا کے دوران اپنی تعلیمی سرگرمیوں کو جاری رکھا ہے،لیکن کچھ پہلو یقینا ایسے ہیں جن پر ذمے دارانِ مدارس کو غور و فکر کرنے اور نظر ثانی کی ضرورت ہے:
(الف) ذمہ دارانِ مدارس موجودہ حکومت کی جاری کردہ” نئی قومی تعلیمی پالیسی “کا مطالعہ کریں اور آنے والے وقت کے لیے خود کو اورطلبہ کو بھی تیار کریں۔ یہ پالیسی ابھی ایک ابتدائی خاکے کی شکل میں ہے اور اس کی بہت وضاحت نہیں کی گئی ہے،لیکن اس کے بعض نکات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں مدارس اورعربی زبان کا کوئی ذکر نہیں ہے، البتہ اس میں ایک لفظ ’متبادل‘ استعمال کیا گیا ہے لیکن اس سے مراد کیا ہے؟اس کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی ہے،نیزاس میں بعض الفاظ ایسے ہیں جس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ یونی ورسٹیوں سے مدارس کے الحاق کو بھی ختم کردیا جائے گا۔اگر ایسا ہوگا تو مدارس کے فارغین ملک کی مختلف یونی ورسٹیوں اور کالجزوں میں داخلہ نہیں لے سکیں گے ۔ موجودہ حکومت کے عزائم اور مقاصد کو دیکھتے ہوئے اس سے انکار کرنا بہت مشکل ہے،کہیں ایسا نہ ہو کہ ہزاروں طلبہ و طالبات کو مستقبل تاریک ہو جائے۔ 
بہتر ہوگا کہ ذمے دارانِ مدارس طلبہ وطالبات کو دورانِ تعلیم جدید علوم کے حصول سے نہ روکیں ۔ہونا تو یہ چاہیے کہ آپ انہیں اس کی طرف توجہ دلائیں اور اس سلسلے میں ان کی مدد کریں اور اگر اتنا نہیں کرسکتے تو کم از کم اس میں رکاوٹ نہ ڈالیں۔ اگر مدرسہ میں پڑھنے والا ایک طالب علم دورانِ تدریس پرائیوٹ ہائی اسکول ،انٹر یا گریجویشن کا امتحان دے رہا ہے تواس میں نقصان کیا ہے؟دینی اور دنیاوی علوم کی تقسیم تو اسلام نے کی ہی نہیں ہے؟اس سے ہونے والے نقصان کا اندازہ بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے میں آپ کے سامنے دو مثال پیش کرتا ہوں ۔میرے ایک ساتھی نے ہندوستان کے مشہور و معروف مدرسہ میں تعلیم حاصل کی اور پھر جے این یو سے عربی میں بی اے ،ایم ے اور پی ایچ ڈی کی سند بھی لی،لیکن جب اس نے پاسپورٹ بنوایا تواسے ہائی اسکول کی سند نہ دکھاپانے کی وجہ سے خود کو ’جاہل‘ کے درجے میں شمار کرانا پڑا،بلاشبہ یہ اس کی زندگی کا سیاہ دن تھا۔اس کے برعکس میرے بڑے بھائی ڈاکٹر محمد عامر نے جامعة الفلاح سے ہی دوران تدریس ہائی اسکول کیا اور پھر انہوں نے انٹر کے بعد MBBS & MS کی کام یابی کے ساتھ ڈگری لی اور الحمد اللہ وہ جہاں ایک طرف دین کا علم رکھتے ہیں وہیں دوسری طرف ایک کام یاب سرجن بھی ہیں۔کیا اسلام نے اس طرح تعلیم کے حصول سے روکا ہے؟ 
(ب)ذمے دارانِ مدارس کو حالات کے پیش نظر اساتذہ اور طلبہ دونوں کے لیے حتیٰ الامکان نرمی ،محبت اور رخصت کا رویہ اختیار کرنا چاہیے،جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے،بدقسمتی سے ان میں (جو علمائے کرام کا درجہ بھی رکھتے ہیں) بالعموم نہ جانے کیوں اتنی سختی،تنگ دلی اور وسعتِ قلبی کا فقدان پایا جاتا ہے، جس کا مظاہر ہ مختلف معاملات میں اکثر و بیشتر دکھائی دیتا ہے۔اساتذہ کرام وطلبہ کی حاضری،نصاب کی تکمیل،آن لائن کلاس لینے کا وقت اورمقام وغیرہ کو ان کی اپنی صوابدید پر چھوڑ دینا چاہیے اوراس حوالے سے مہینے کے آخر میں ایک رپورٹ لے لی جائے تو اس سے ان کے درس و تدریس کے معیار کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا۔ذمے داروں کا دوران تدریس اساتذہ اور طلبہ کی نگرانی کرنا اورہمیشہ آن لائن تدریس میں شرکت کرنا وغیرہ دراصل یہ بالکل غیر اخلاقی اور بھونڈا عمل ہے جو واضح کرتا ہے کہ آپ کو اپنے اساتذہ کرام اور طلبہ پر بھروسہ نہیں ہے؟تو آپ نے پھر ایسے اساتذہ اور طلبہ کو اپنے مدرسے میں جگہ کیوں دی ہے؟مجھے نہیں لگتا کہ اس طرح ’خدا‘ بننے سے تعلیم کے معیار میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جامعہ ہمدرد جیسی بڑی یونی ورسٹیوں میں یہی طریقہ اختیار کیا گیا ہے جس کا نظام بالعموم غیر کے ہاتھ میں ہے۔
 (ج)بعض مدارس میں اساتذہ کرام کو اس قدر سخت حالات میں بھی اپنی ذمہ داریوں سے سبک دوش کردیا گیا ہے جو کسی بھی طرح سے مناسب اور جائز عمل نہیں ہے۔جب حالات درست تھے تب تو آپ نے ان سے خدمات لیں اور جب ان پر مشکل وقت آیا تو آپ نے بھی انہیں کنارے کردیا؟یہ کیسا انصاف ہے؟ذمے دارانِ مدارس کی اکثریت اگر اس وقت اپنی عیش و عشرت کی زندگی میں کچھ کمی کر لے تو یقینا اس سے کئی گھروں کے مسائل حل ہو جائیں گے۔
(د)بعض ذمہ داران ِمدارس نے نامساعد حالات اور مالی تنگی کی وجہ سے اساتذہ کرام اور دیگر کارکنان کی تنخواہ آدھی کر دی ہے۔اگر واقعی عذر ہے تو ظاہر ہے کہ اسے مجبوری کے تحت برداشت کیا جانا چاہیے،لیکن پھر اس میں انہیں حسب گنجائش رخصت بھی دینی چاہیے ۔یہ عمل کسی بھی لحاظ سے مناسب اور درست نہیں کہا جاسکتا ہے کہ آپ کام تو عام دنوں کی طرح پورا لیں اور تمام معاملات میں سختی کا رویہ رکھیں اور تنخواہ انہیں آدھی دیں۔میں سمجھتا ہوں کہ ایسا کرنے والے یقینا اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دہ ہوں گے۔
(ح)بعض مدارس میں تمام اساتذہ (جن میں بزرگ اساتذہ بھی شامل ہیں )کوباقاعدہ عام دنوں کی طرح مدرسہ میں حاضری کے لیے مجبور کیا جارہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب آن لائن کلاس لینی ہے اور سماجی دوری کا خیال رکھنا ہے،تو اس کا فائدہ کیا ہوا؟اگر کسی کو کرونا ہوگیا تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟پھر جو میڈیا میں مدارس کو لے کر ہنگامہ ہوگا اور مسلمانوں پر اس کا الزام تھوپا جائے گا ،اسے کون جھیلے گا؟موجودہ حکومت تو بس موقع کی تلاش میں ہے اورتبلیغی جماعت کا حشر ہم سب کے سامنے ہے۔جہاں تک کلاس لینے کی بات ہے تو اساتذہ کرام اپنے گھروں سے لے سکتے ہیں،انہیں اسکول بلانے کی کیا ضرورت ہے؟اگر بلانا اتنا ہی ضروری ہے تو ففٹی ففٹی کے فارمولے کو اختیار کیا جاسکتا ہے کہ ایک دن 50 فیصد اساتذہ کی حاضری ہو اور دوسرے دن باقی 50 فیصد اساتذہ کو بلایا جائے۔اس سے بھیڑ بھی کم ہو گی اور کرونا کے پھیلنے کا خطرہ بھی کم ہوجائے گا۔یہی وجہ ہے کہ مختلف یونی ورسٹیوں اور کالجز میں اسی پر عمل کیا جارہا ہے۔
(خ)مدارس کے ذمہ داران موجودہ صورت حال میں طلبہ و طالبات کے امتحانوں میں نرمی کا معاملہ اختیار کریں اور انہیں اچھے نمبرات سے کام یاب کریں، بالخصوص ان طلبہ وطالبات کو جن کا آخری سال ہو،کیوں کہ اس وقت ملک کی مختلف یونی ورسٹیوں اور کالجز وغیرہ میں داخلے عام دنوں کے برعکس انٹرنس ٹسٹ (Entrance Tests) کی جگہ میرٹ کی بنیاد(Merit-Based) پر ہو رہے ہیں۔اس لیے ضروری ہے کہ زیادہ نمبرات دیے جائیں تاکہ انہیں عصری تعلیم کے حصول میں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ یوپی بورڈ وغیرہ میں نمبرات بہت زیادہ دیے جاتے ہیں ،پھر یہی ہوگا کہ مدارس کے طلبہ کم نمبروں کی وجہ سے داخلے نہیں لے سکیں گے جس سے قوم وملت کا بھی نقصان ہوگا۔ 
(ی)بعض مدارس میں ذمے دارانِ مدارس اور اساتذہ اس سنگین صورت حال میں بھی طلبہ و طالبات کے ساتھ انتہائی سخت رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں جو کہ بالکل ہی غیر مناسب عمل ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ ان کے مزاج کا حصہ بن چکا ہے۔آپ مختلف مدارس کی طلبہ کے لیے کسی نوٹس کی زبان دیکھ لیں ،اس میں بالعموم معلومات کے ساتھ ساتھ دھمکیاں بھی اس کا لازمی جزءہوں گی،مثلاً ”تمام طلبہ اس تاریخ تک اپنی تجدیدداخلہ کرا لیں ورنہ ان کا اخراج کردیا جائے گا۔“یا ”تعطیل کے بعد اس تاریخ تک لازمی طور پر مدرسہ میں واپسی کر لیں ورنہ اتنے روپئے جرمانہ وصول کیا جائے گا۔“کیا یہ زبان علمائے دین کو زیب دیتی ہے؟کیا انہیں اس سے بہتر الفاظ نہیں مل سکتے ہیں؟اس پر انہیں غور کرنا چاہیے۔
مجھے قوی امید ہے کہ ہندوستان کے ذمے دارانِ مدارس درج بالا نکات پر غور و فکر کریں گے اور وقت و حالات کے مطابق حسب گنجائش اسے قبول کریں گے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان مشکل حالات و مسائل سے مدارس کو محفوظ رکھے ۔آمین
                 


|| پہلا صفحہ || تعليم || سياست || جرائم؍حادثات || حق و انصاف || گائوں سماج || اچھي خبر || پرديس || ديني باتيں || کھيل || ادب || ديگر خبريں ||


HAUSLA.NET - 2024 ©